ایک اور صحافی ہلاک: بلوچستان میں صحافت اتنی مشکل کیوں ہے؟

گوکہ جدت اور سوشل میڈیا کے باعث نوجوانوں کی بڑی تعداد اس شعبے کا رخ کررہی ہے۔ تاہم سینیئر صحافیوں کا ماننا ہے کہ بلوچستان جیسے صوبے میں کام کرنا آسان نہیں ہے۔

آٹھ اگست 2016 کو ہونے والے ایک دھماکے میں مارے جانے والوں کی یاد میں صحافیوں اور سول سوسائٹی کے ارکان  کی جانب سے روشن  کی گئیں شمعیں (اے ایف پی/ فائل فوٹو)

اتوار کی شام حب سٹی تھانے کے قریب مقامی صحافی شاہد زہری اپنی گاڑی میں گزر رہے تھے کہ اس دوران دھماکہ ہوا، جس میں وہ شدید زخمی ہو گئے۔ انہیں ابتدائی طبی امداد کے بعد کراچی ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔

واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ گاڑی جیسے ہی سڑک سے موڑ کاٹنے کے بعد روانہ ہوتی ہے تو اسی دوران دھماکہ ہو جاتا ہے۔ 

ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والے شاہد زہری نے صحافت کا آغاز 2013 میں کیا تھا اور وہ آغاز سے ٹی وی چینل ’میٹرو ون ‘ سے وابستہ رہے۔

بلوچستان صحافت کے حوالے سے ایک مشکل اور پر خطر صوبہ ہے۔ چونکہ یہاں ایمرجنسی چل رہی ہے اور صوبے کے بعض علاقوں میں حالات کشیدہ رہتے ہیں۔

فیڈرل یونین جرنلٹس کے شہزادہ ذوالفقار سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں صحافت کرنا ہمیشہ سے ہی ایک مشکل کام رہا ہے۔

شہزادہ ذوالفقار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہاں (بلوچستان) کے جنگی ماحول میں صحافت اور بھی مشکل ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ اس قسم کے ماحول میں عام شہری محفوظ نہیں رہتا ہے۔ صحافی تو مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ آسان ہدف پر رہتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اب تک ہدف بنا کر مارے جانے والے بلوچستان کے صحافیوں کی تعداد 25 ہے۔

شہزادہ ذوالفقار کے مطابق: ’اگر کوئی سمجھتا ہے کہ صحافی جانبدار ہے اور کسی ایک فریق کے حق میں ہے تو اس کے خلاف صحافتی تنظیموں اور پریس کلب کو اطلاع دی جائے۔‘

’اب جو شاہد زہری کو حب میں نشانہ بنایا گیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ کسی صحافی کو بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا۔ اس سے قبل گولی کے ذریعے ہدف بنایا جاتا رہا ہے۔‘

ان کے مطابق اس حوالے سے اب بتایا جا رہا ہے کہ ایک مزاحمتی تنظیم نے شاہد زہری پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور انہیں مبینہ طور پر کسی ایجنسی کا آلہ کار بتایا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل جب خضدار کے صحافیوں کے حوالے سے بلوچ لبریشن آرمی نے ایک ہٹ لسٹ جاری کی تھی، اس پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹس کا کوئٹہ میں اجلاس ہو رہا ہے جس میں ہم نے اس کی مذمت میں قرارداد پاس کی ہے۔

’قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی تنظیم یا بی ایل اے کو کسی صحافی سے شکایت ہے تو مطلوبہ فورم موجود ہے۔ صحافتی تنظیمیں ہیں ان سے رابط کر کے بتایا جائے یا ادارے کو بتایا جائے جس کا کوئی حل نکل سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی صحافی ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہے اور تنبیہہ کے باوجود وہ یہ کام نہیں چھوڑتا تو ہم اس سے لاتعلقی کا اعلان کر سکتےہیں۔

شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ جو 24 صحافی اب تک ہدف بنا کر ہلاک کیے گئے ان میں چار یا پانچ کے حوالے سے کالعدم تنظیموں نے ذمہ داری قبول کی ہے جبکہ دیگر کے بارے میں اطلاعات ملیں ہیں کہ ان پر بھی ایسے ہی الزامات لگائے گئے تھے۔

بلوچستان میں مارے جانے والے صحافیوں کے بارے میں شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ سب سے پہلا صحافی جو ہدف بنا کر ہلاک کیا گیا وہ ڈاکٹر چشتی مجاہد تھے جنہوں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ان کے قتل کی ذمہ داری بھی بی ایل اے نے قبول کی تھی۔

یاد رہے کہ اس سے قبل قلات سے تعلق رکھنے والے صحافی محمود آفریدی کو بھی ہدف بنا کر قتل کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں کہا کہ بی ایل اے کے ’سرمچاروں نے آج دس اکتوبر کو حب شہر میں شاہد زہری کو ایک بم حملے میں نشانہ بنا کر ہلاک کیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’صحافی 2008 سے بلوچ تحریک کے خلاف سرگرم عمل تھا۔ خفیہ ادارے کے لیے کام کر رہا تھا۔‘

ادھر لسبیلہ پریس کلب کے ایک عہدیدار نیاز شہزاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شاہد زہری نے 2010 میں صحافت کا آغاز کیا اور ابتدا میں انہوں نے میٹرو ون سے کام شروع کیا۔

نیاز شہزاد نے بتایا کہ شاہد زہری اس دوران لسبیلہ پریس کلب کے آفس سیکرٹری اور انفارمیشن سیکرٹری کے عہدے پر بھی فائز رہے۔

انہوں نے کہا کہ شاہد نے کچھ عرصہ جی این این ٹی وی چینل کے لیے بھی کام کیا بعد میں دوبارہ میٹرو ون سے منسلک ہوگئے اور آخر وقت تک اسی کے لیے کام کر رہے تھے۔

نیاز شہزاد نے بتایا کہ شاہد زہری نے لسبیلہ پریس کلب یا اس کے کسی عہدیدار سےکبھی کسی دھمکی یا پریشانی  کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا تھا۔ اس واقعہ کے بعد یہاں کے صحافی انتہائی خوف کا شکار ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ چونکہ صحافت مشکل کام تو ہے اور بعض اوقات ہمیں دباؤ کا سامنا بھی رہتا ہے۔  حالیہ واقعہ بھی یہاں کے صحافیوں کے مشکلات بیان کرنےکےلیے کافی ہے۔

گوکہ جدت اور سوشل میڈیا کے باعث نوجوانوں کی بڑی تعداد اس شعبے کا رخ کررہا ہے۔ تاہم سینیئر صحافیوں کا ماننا ہے کہ بلوچستان جیسے صوبے میں کام کرنا آسان کام نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان