صحافت کی آڑ میں ذاتی فعل کو تحفظ نہیں دیں گے: سپریم کورٹ

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ ’ہم پریس فریڈم پر یقین رکھتے ہیں لیکن اس کو قانون کے دائرے (ریگولیٹ) میں لانے کی ضرورت ہے۔ اس پر جسٹس اعجاز نے استفسار کیا کہ پریس کی تعریف ہے کیا؟

پیر کو ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایف آئی اے سمیت کسی ادارے کو اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کرنے دیں گے(تصویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ)

سپریم کورٹ آف پاکستان میں صحافیوں کو ہراساں کیے جانے سے متعلق ازخود نوٹس کے مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ ’صحافت کی آڑ میں کسی کے ذاتی فعل کو تحفظ نہیں دیں گے، کسی کو صحافیوں سے مسئلہ ہے تو قانونی راستہ اپنائے۔‘

پیر کو سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ پریس ایسوسی ایشن کی طرف سے شاہ خاور اور پاکستان یونین آف جرنلسٹ کی جانب سے وکیل راجہ عامر عباس پیش ہوئے اور عدالت سے کہا کہ وہ اپنے تحریری دلائل جمع کروائیں گے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ ’ہم پریس فریڈم پر یقین رکھتے ہیں لیکن اس کو قانون کے دائرے (ریگولیٹ) میں لانے کی ضرورت ہے۔ اس پر جسٹس اعجاز نے استفسار کیا کہ پریس کی تعریف ہے کیا؟

اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پریس ایک الگ چیز ہے اور صحافی الگ ہے لیکن یہ کو ریلیٹڈ ہیں۔

’پریس کا مطلب میڈیا ہاؤس ہے لیکن اس کو صحافی چلاتا ہے لیکن اگر جسٹس منیب اختر اٹھ کر یوٹیوب چینل بنا لیں اور سب کے خلاف بولنا شروع کر دیں تو کیا یہ بھی صحافت کہلائے گی؟‘

انہوں نے کہا کہ ’آزادی صحافت کو ریگولیٹ آئین کا آرٹیکل 19 کرتا ہے پیکا نہیں۔‘

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’جب آئین بنا تو سوشل میڈیا نہیں تھا۔ اس وقت صرف اخبار تھا الیکٹرونک میڈیا بھی نہیں تھا وقت کے ساتھ ساتھ ترامیم ہوئی ہیں اور اب سوشل میڈیا کا دور ہے۔‘

سپریم  کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین پیمرا اور آئی جی اسلام آباد سے صحافیوں کے مقدمات سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کی جبکہ ڈی جی ایف آئی اے کو حکم دیا ہے کہ ایک سال میں صحافیوں پر ہونے والے مقدمات کی رپورٹ پیش کریں اور آئی جی اسلام آباد کو احکامات جاری کیے کہ وہ ایک سال میں صحافیوں پر ہونے والے حملوں سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ چار سالوں کے دوران صحافیوں کے خلاف 27 شکایات ملی ہیں جن میں سے صرف چار شکایات انکوائری میں تبدیل ہوئیں اور مقدمات درج ہوئے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایف آئی اے سمیت کسی ادارے کو اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کرنے دیں گے۔

’ایف آئی اے الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کا اطلاق پہلے کرتا ہے سوچتا بعد میں ہے۔‘ جسٹس منیب اختر نے بھی ریمارکس دیے کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی تو ذمہ دار ڈی جی ایف آئی اے ہوں گے۔

صحافیوں کے اغوا اور تشدد کے واقعات پر جسٹس قاضی امین نے کہا کہ صحافیوں کو گولیاں مارنا یا تشدد کرنا لاقانونیت ہے۔

’آئی جی اسلام آباد یقینی بنائیں کہ صحافیوں پر حملے کرنے والے گرفتار ہوں۔‘

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا صحافی کو گولی مارنے والے ملزم پکڑے گئے؟

آئی جی اسلام آباد قاضی جمیل نے عدلت کو بتایا کہ ’نادرا کو ویڈیوز بھجوائیں لیکن ملزمان کی شناخت نہیں ہوسکی۔‘

اس پر جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ ’مینار پاکستان واقعے کے ملزم پکڑے جاسکتے ہیں تو صحافیوں کے کیوں نہیں؟ ملزمان کا گرفتار نہ ہونا آئی جی صاحب آپ کی ناکامی ہے۔‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے اداروں کی رپورٹس کا جائزہ لینے کے بعد کہا کہ گائیڈ لائنز جاری کریں گے جس پر حکومت اور تمام ادارے عمل کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ جائزہ لیں گے کہ الیکٹرانک کرائم ایکٹ کےتحت کارروائی آرٹیکل 19 سے متصادم تو نہیں۔

عدالت نے چیئرمین پیمرا سے چینلز کے کارروائی کے اختیار سے متعلق جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ پیمرا بتائے کیا اس کے قانون کا سیکشن 27 آئین کے آرٹیکل 19 کے متصادم ہے؟

عدالت نے اٹارنی جنرل سے بھی پیمرا قانون کے سیکشن 27 کی تشریح پر معاونت طلب کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان