پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے وقت حکومت کی چار مشکلات

قومی اسمبلی کے تین سال مکمل ہونے پر صدر عارف علوی پیر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے لیکن پارلیمنٹ کے باہر میڈیا اور اپوزیشن کا احتجاج اور الیکشن کمیشن کا اہم اجلاس بھی ہونا ہے۔

پارلیمنٹ ہاؤس کی یہ تصویر 23 اپریل 2021، کو لی گئی ہے جہاں پیر کو صحافتی تنظیمیں پی ایم ڈی اے کے مجوزہ قانون کے خلاف احتجاج کریں گی ( اے ایف پی فائل)

پاکستان میں صحافتی اور اخباری مالکان کی نمائندہ تنظیمیں پیر کو پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے نام سے ایک ادارے کے قیام کے حکومتی فیصلے کے خلاف اسلام آباد میں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے موقعے پر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاج کریں گی۔

حزب اختلاف کی چند جماعتوں کے اتحاد پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ اور پی ایم ڈی اے مخالف احتجاج میں صحافیوں کی تنظیموں کے ساتھ حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ 

پارلیمان کا مشترکہ اجلاس قومی اسمبلی کے تین سال مکمل ہونے پر بلایا گیا ہے، جس سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی خطاب کریں گے۔ 

ٹھیک اسی دن پارلیمنٹ ہاؤس سے چند گز کے فاصلے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ایک اہم اجلاس بھی ہو گا جس میں ملک میں انتخابات کروانے کے ذمہ دار آئینی ادارے الیکشن کمیشن پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں (ای وی ایم) بنانے والی کمپنیز سے رشوت لینے کے بعض وفاقی وزرا کے سنگین الزامات پر بحث ہو گی۔

سینیئر صحافی ایم ضیا الدین نے اس صورت حال کو پیچیدہ اور گھمبیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اقتدار کے باقی ماندہ عرصے میں اپنے مفاد کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہتی ہے۔ 

انہوں نے کہا: ’تحریک انصاف دراصل ہر شعبے میں اپنا غلبہ چاہتی ہے اور اقتدار کے آخری سالوں میں ہر حکومت یہی سب کچھ کرتی ہے۔‘ 

ملک کی صورت حال پر نظر رکھنے والے اکثر تجزیہ کاروں کے خیال میں تحریک انصاف کی حکومت نے غیر ضروری طور پر بہت سارے محاذ کھول لیے ہیں اور معمولی غلطی بھی مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔ 

مندرجہ ذیل سطور میں ہم جائزہ لیں گے کہ معیشت، خارجہ پالیسی اور دیگر عمومی مسائل کے علاوہ وہ کون سے دوسرے محاذ ہیں جن پر پی ٹی آئی کی حکومت نبرد آزما ہے۔ 

تجزیہ کار نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ میڈیا اور حزب اختلاف کے علاوہ اعلی عدلیہ، الیکشن کمیشن اور وکلا میں بھی حکومت کی مخالفت پیدا ہو گئی ہے یا ہو رہی ہے۔ 

ان کا کہنا تھا: ’یہ چھوٹی چھوٹی جنگیں ہیں جو آنے والے وقت میں معاشرے کے مختلف طبقات اور شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو حکومت کے خلاف کھڑا کر سکتی ہیں اور ایسی صورت حال کو قابو میں رکھنا مشکل ہو جائے گا۔‘  

میڈیا  

وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے ملک میں میڈیا کے معاملات کو دیکھنے والے تمام حکومتی اور خود مختار اداروں کو ضم کر کے پاکستان میڈیا ڈویلیپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے نام سے ایک نیا ادارہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔  

وفاقی حکومت کے خیال میں پی ایم ڈی اے جھوٹی خبروں کے سدباب اور میڈیا خصوصاً بے ہنگم انداز میں پھیلتے ہوئے سوشل میڈیا کو ایک نظام کے تحت چلانے کے لیے ضروری ہے۔ 

وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا کہ بے ہنگم اخراجات کے باوجود میڈیا سے متعلق مختلف حکومتی اور خود مختار اداروں کی کارکردگی غیر تسلی بخش رہی۔ 

میڈیا کارکنان اور مالکان کے علاوہ سول سوسائٹی کے بہت سارے شعبوں اور پی ڈی ایم میں شامل حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی پی ایم ڈی اے کے مجوزہ قیام کو مسترد کیا ہے۔ 

پاکستان میں کارکن صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے سابق صدر اور سینیئر صحافی مظہر عباس نے پی ایم ڈے اے کے سلسلے میں حکومتی موقف کو رد کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا سے متعلق موجود اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ نئی باڈی بنائی جائے۔ 

انہوں نے کہا کہ مجوزہ پی ایم ڈی اے کے پاس صحافیوں اور اخباری مالکان پر بھاری جرمانے عائد کرنے اور قید کی سزا دینے کا اختیار ہوگا جو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں۔ 

انتخابی صلاحات 

الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی انٹرنیٹ ووٹنگ کو ممکن بنانے کے لیے الیکشن ایکٹ میں حکومتی مجوزہ ترامیم پر الیکشن کمیشن آف پاکستان اور وفاقی حکومت کے درمیان اختلافات ایک نیا رخ اختیار کر گئے ہیں۔ 

رواں ہفتے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے ای وی ایم پر 34 اعتراضات پیش کیے جس پر وفاقی وزیر برائے ریلویز اعظم خان سواتی اور بابر اعوان نے نہ صرف ای سی پی پر الزامات لگائے بلکہ قابل اعتراض زبان بھی استعمال کی۔

فواد چوہدری نے اسی شام چیف الیکشن کمشنر پر حزب اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کا ساتھ دینے کا الزام بھی لگایا۔ 

ان الزامات پر بحث کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا اجلاس پیر کو ہوگا جس میں قانونی ماہرین کے مطابق ای سی پی مذکورہ وفاقی وزرا کے خلاف ایکشن لے سکتا ہے۔ 

واضح رہے کہ مذکورہ انتخابی اصلاحات کا بل قومی اسمبلی سے منظور ہو چکا ہے جبکہ سینیٹ میں اکثریت نہ ہونے کے باعث بل کے مسترد ہونے کے ڈر سے اسے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے قانونی شکل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 

مظہر عباس کے خیال میں ای وی ایم سے متعلق وفاقی حکومت کی ہٹ دھرمی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ’اتنی زیادہ مخالفت کی صورت میں معاملات کو افہام و تفہیم سے سلجھانا چاہیے جبکہ حکومت بضد ہے کہ ہر صورت اصلاحات کو منظور کروانا ہے۔‘

حزب اختلاف کی جماعتیں پہلے سے ای وی ایم اور ای ووٹنگ کی مخالفت کر رہی ہیں تاہم الیکشن کمیشن کے ساتھ حکومتی رویے نے صورتحال کو نیا رنگ دیا ہے۔ 

نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف ایسا رویہ حکومت کی شروع کی گئی کئی لڑائیوں میں سے ایک ہے۔ ’اور اگر یہ لڑائی عدالت میں جاتی ہے تو اعلیٰ عدلیہ الیکشن کمیشن کا ساتھ دے گی کیونکہ وہ جو کہہ رہے ہیں قانون و آئین کے مطابق ہے۔‘ 

بار اینڈ بینچ 

نجم سیٹھی کے مطابق بار اور بینچ کے درمیان بھی ایک جھگڑا چل رہا ہے جو لاہور ہائی کورٹ کی جج جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی تجویز کے خلاف وکلا کے احتجاج  سے کھل کر سامنے آیا۔ 

وکیلوں کی نمائندہ تنظیموں کا موقف ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی ہر صورت آئین و قانون کے مطابق ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں ججوں کی سینیارٹی کو ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے۔ 

دوسری طرف اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی کے ذمہ دار ادارے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی کے فیصلے پر اختلافات دیکھنے میں آئے۔ 

نجم سیٹھی کے خیال میں بار اور بینچ کے درمیان یہ رسہ کشی بھی آخر میں حکومت ہی کے مسائل میں اضافہ کرے گی کیونکہ تناؤ کہیں بھی ہو حکومت ضرور متاثر ہوتی ہے۔ 

حزب اختلاف 

گذشتہ ہفتے پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں حکومت مخالف احتجاج کا دوسرا حصہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کی ابتدا 26 ستمبر کو اسلام آباد میں ایک کنوینشن سے ہو گی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پی ڈی ایم نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے صدر عارف علوی کے خطاب کا بائیکاٹ کرنے کے علاوہ آئندہ مہینے حکومت مخالف جلسوں اور جلوسوں کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ 

ایم ضیا الدین کے خیال میں حزب اختلاف اس وقت پریشانی کا شکار ہے اور دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیز پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز اپنے اپنے طور پر کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 

دوسری طرف نجم سیٹی کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف کو موجودہ صورت حال کو سمجھنا چاہیے اور حکومت مخالف مہم تیز کر دینا چاہیے۔

’یہی موقع ہے جس سے وہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ حکومت اپنے لیے کافی سارے محاذ کھول چکی ہے۔‘ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت فاشسٹ انداز میں لوگوں کی رائے کو رد کر رہی ہے اور اب آہستہ آہستہ عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں، جو وقت کے ساتھ زیادہ ہوں گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان