پاکستانی ٹیم کا مڈل آرڈر دھوکہ کیوں دے جاتا ہے؟

مڈل آرڈر بیٹنگ ہر ٹیم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے کیوں کہ اوپنرز کا کام ٹیم کو ایک اچھا آغاز دینا ہوتا ہے، لیکن کسی بھی بڑے سکورکی توقع نہیں رکھی جاتی ہے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کی اوپننگ جوڑی کپتان بابر اعظم اور وکٹ کیپر بیٹسمین محمد رضوان ایشیا کپ ٹوئنٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ گروپ اے کے 28 اگست 2022 کو کھیلے جانے والے میچ کے دوران رننگ کر رہے ہیں (تصویر: اے ایف پی)

پاکستانی کرکٹ پر بات کرنے والے ہر شخص کا ایک ہی موضوع ہے کہ مڈل آرڈر ہر بار کیوں ناکام ہوجاتا ہے اور ناکامی کا یہ سلسلہ صرف ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ہی نہیں بلکہ ٹیسٹ کرکٹ اور ون ڈے میں بھی نظر آتا ہے۔

مڈل آرڈر بیٹنگ ہر ٹیم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے کیوں کہ اوپنرز کا کام ٹیم کو ایک اچھا آغاز دینا ہوتا ہے لیکن کسی بھی بڑے سکورکی توقع نہیں رکھی جاتی ہے کیوں کہ نئی گیند اور پھر حریف بولرز کی بھرپور توانائیوں کا سامنا کرنا ہی ایک معرکہ ہوتا ہے، اس لیے اگر اوپننگ سٹینڈ 60 سے 70 رنز ہوجائے تو کافی سمجھا جاتا ہے۔

ٹیسٹ کرکٹ میں تو ایک الگ ماحول ہوتا ہے لیکن ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں اوپنرز کا کام پاور پلے کا بہتر استعمال ہوتا ہے، یعنی پہلے چھ اوورز میں جب صرف دو فیلڈرز دائرے سے باہر ہوتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ رنز سمیٹے جائیں۔

موجودہ دور کی کرکٹ میں ہر ٹیم میں جارحانہ کھلاڑی اوپنرز بھیجے جاتے ہیں، جو اپنی وکٹ بچانے کے بجائے رنز پر توجہ دیتے ہیں۔

پاکستانی کرکٹ اس کے برعکس ہے۔ پاکستان نے اپنے سب سے بہترین بلے بازوں کو اوپنرز بنا رکھا ہے جو آخری اوور تک کریز پر رکنے کی سوچ لے کر آتے ہیں اور جارحانہ کھیل سے گریز کرتے ہیں۔

محمد رضوان ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ میں نے بابر کے ساتھ طے کیا ہوا ہے کہ ہم میں سے اگر کوئی جلدی آؤٹ ہوا تو دوسرا پارٹنر آخری اوور تک وکٹ پر رکے گا۔

محدود اوورز کی کرکٹ میں جبکہ دوسری ٹیمیں بے خوف کرکٹ کھیل رہی ہیں تو پاکستان محتاط کرکٹ کا سوچ رہا ہے۔ اس مائنڈ سیٹ نے پاکستان کے لیے پاور پلے کا بہتر استعمال تقریباً روک دیا ہے۔

پاکستان کے کپتان بابر اعظم ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے رنز کے اعتبار سے سب سے بہترین کھلاڑی ہیں لیکن اوپننگ کی روح کے حساب سے بہت پیچھے ہیں۔

پاکستان نے اپنے آخری 10 ٹی ٹوئنٹی میچ کمزور ٹیموں کے خلاف کھیلے لیکن ان میں بھی پاور پلے کا استعمال موثر نہ ہوسکا۔

پاکستان نے گذشتہ دنوں بھارت کے خلاف ایشیا کپ کا پہلا میچ کھیلا اور پاور پلے میں صرف 43 رنز بن سکے، اس سے قبل ٹیم نے آخری میچ آسٹریلیا کے خلاف لاہور میں کھیلا جس میں 56 رنز تو بنے لیکن مڈل آرڈر فیل ہوگیا اور پاکستان ہار گیا۔

ویسٹ انڈیز کی کمزور ٹیم کے خلاف تین میچوں میں 60 رنز سب سے زیادہ سکور رہا لیکن مڈل آرڈر ایک بار پھر دھوکا دیتا رہا۔ اس سیریز میں بابر اعظم اور محمد رضوان رنز کے انبار لگاتے رہے لیکن باقی بلے باز بے نیاز رہے۔

پچھلے ایک سال میں پاکستان کا سب سے یادگار میچ بھارت کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں تھا جو پاکستانی اوپنرز نے تن تنہا جیت لیا لیکن ناگوار سچ یہ ہے کہ بھارتی ٹیم اس میچ میں محض 151 رنز کا ہدف دے سکی تھی۔

پاور پلے مڈل آرڈر سے کیوں متاثر ہے؟

پاور پلے کا حقیقی مطلب بے خوف بیٹنگ ہے جو اننگ کے مجموعی سکور کا رخ متعین کرتا ہے لیکن اوپنرز اسی وقت بے خوف کھیل سکتے ہیں اگر ان کو یقین ہو کہ مڈل آرڈر بھی اسی طرح مستعد ہے اور اگر وکٹ گرنے کا خوف ہو تو کھیل کبھی بھی تیز اورجارحانہ انداز کی اجازت نہیں دیتا۔ پاکستانی ٹیم کا مڈل آرڈر اس خوف کو قائم رکھے ہوئے ہے۔

کیا بابر اعظم مناسب اوپنر ہیں؟

بابر اعظم موجودہ دور کے سب سے نامور بلے باز ہیں اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ رینکنگ میں سرفہرست ہیں۔ انہوں نے 75 میچوں میں 26 سو 96 رنز بنائے ہیں جبکہ اوپنر کی حیثیت سے 49 میچوں میں 19 سو 22 رنز بنائے ہیں۔

ان کا سٹرائیک ریٹ 132 ہے جبکہ ان کے ہم عصر روہت شرما کا 142، ڈیوڈ وارنر کا 140 اور مارٹن گپٹل کا بھی 140 ہے۔

مذکورہ بالا تینوں اوپنر پاور پلے میں بھی رنز لینے میں بابر اعظم سے بہت آگے ہیں۔ پاکستان کے متروک اوپنر فخر زمان کا سٹرائیک ریٹ بابر اعظم سے زیادہ ہے۔

بابر کے موجودہ پارٹنر محمد رضوان اگرچہ اوسط میں تو سب سے زیادہ ہیں لیکن سٹرائیک ریٹ میں بابر کے برابر ہیں۔

بابر اعظم اپنے تمام ہم عصروں میں محتاط بیٹنگ کے لیے جانے جاتے ہیں اور پاور پلے میں بھی کوشش کرتے ہیں کہ محتاط رہیں۔

ان کے محتاط کھیل کی وجہ ان کا انداز بھی ہے اور ان کے مڈل آرڈر کے فیل ہوجانے کا خوف بھی اور پھر کپتانی کا بوجھ انہیں مزید جھکا دیتا ہے۔

پاکستان کہاں غلطی کر رہا ہے؟

پاکستانی بیٹنگ کی کمزوری اس کے پاس کسی حقیقی پاور ہٹر کا نہ ہونا ہے۔ فخر زمان میں یہ صلاحیت ہے لیکن انہیں انتظامیہ ایسا کرنے سے روکتی ہے۔

ماضی میں شاہد آفریدی، عبدالرزاق، کامران اکمل اور عمر اکمل پاور ہٹر تھے لیکن ان کے جانے کے بعد ہر کھلاڑی سکور بورڈ کے لیے کھیلنا چاہتا ہے تاکہ اگلے میچ میں نشست پکی رہے۔

اس سوچ نے جیت کی لگن اور گرمجوش کھیل کا عنصر ختم کر دیا ہے۔  ہرکھلاڑی صرف یہ دکھانا چاہتا ہے کہ اس نے خود کتنے رنز کیے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارت کے خلاف میچ میں افتخار احمد کی بیٹنگ اس کی مثال تھی۔

ایک اور غلطی یہ ہے کہ مڈل آرڈر سست اور کاہل ہوگیا ہے، جب سے بابر اور رضوان نے آدھی سے زیادہ اننگ اپنے ہاتھ میں لی ہے۔

مڈل آرڈر نے اپنے کردار کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ اب کوچ سے لے کر بلے بازوں تک کسی کے پاس بھی ٹارگٹ بیٹنگ نہیں ہوتی ہے۔

ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے ایک مایہ ناز بلے باز میکسویل کہتے ہیں کہ میں پہلے سے سوچ کر آتا ہوں کہ 200 کا سٹرائیک ریٹ رکھنا ہے۔

پاکستانی بیٹنگ کوچ بھی ایسے سابق بلے باز ہیں جو جارحانہ شاٹ کبھی کبھار ہی کھیلتے تھے لیکن ہر اننگ میں مناسب سکور کرلیتے تھے۔

وہ ابھی بھی نئے دور کی کرکٹ سے آشنا نہیں ہیں اور پاور پلے کو استعمال کرنے کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ وہ اسی روایت پر عمل پیرا ہیں کہ خراب گیند پر شاٹ مارا جائے جبکہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں اچھی گیند کو باؤنڈری سے باہر پہنچایا جاتا ہے۔

حل کیا ہے؟

پاکستانی کرکٹ ٹیم کی انتظامیہ کو دلیری سے فیصلے کرنے ہوں گے اور ہر بلے باز کو سٹرائیک ریٹ 140 سے زیادہ رکھنے کا ہدف دینا ہوگا اور کسی بھی کھلاڑی کے اگلے میچ کی سلیکشن سٹرائیک ریٹ سے بھی دیکھی جانی چاہیے۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں میتھیو ہیڈن بیٹنگ کوچ ہوں گے، انہیں پاور پلے میں زیادہ سے زیادہ رنز بنانے کے لیے اوپنرز کو ہدف دینا ہوگا۔

مناسب ہوگا کہ بابر اعظم اپنی جگہ فخر زمان کو اوپنر بھیجیں تاکہ پاور پلے میں دھواں دھار بیٹنگ کی جاسکے۔

مڈل آرڈر میں مزید ایک سپیشلسٹ بلے باز کھلانا ہوگا۔ افتخار احمد، آصف علی یا خوشدل شاہ میں وہ صلاحیت نہیں کہ آخری اوورز میں 15 سے 20 رنز لے سکیں۔

اس کے لیے ہارڈ ہٹر ڈھونڈنے ہوں گے ورنہ ٹیم میچ تو جیت لے گی لیکن مقابل میں نیدرلینڈ اورہانگ کانگ جیسی ٹیمیں رکھنا ہوں گی، آسٹریلیا اور بھارت سے آپ اس حکمت عملی سے نہیں جیت سکتے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ