پاکستان کا تاریخی اور تباہ کن سیلاب ابھی تک رکنے کو نہیں۔ ابھی اس کی تباہی بدقسمتی سے عروج تک نہیں پہنچی۔ بارشیں ابھی تک جاری ہیں اور ساتھ میں تباہی بھی۔
پچھلے 36 گھنٹوں میں سیہون اور آس پاس کے علاقے بچانے کے لیے منچھر جھیل میں شگاف ڈالنا پڑا جس کے نتیجے میں جعفر آباد اور قریب کی بستیوں کے ہزاروں مقیم بے گھر ہو گئے ہیں۔ اور یونہی دادو سندھ کے قریب کے علاقے نظیرآباد کا فضائی معائنہ کریں تو پانی سے گھرا ایک جزیرہ دکھائی دیتا ہے۔ لیکن یہ جزیرہ نہیں مشکلات میں گرے ہزاروں لوگوں کا شہر ہے جو اب سیلاب کی زد میں ہے۔
سیلاب کے پانی کے زد میں اب پاکستان کی کم سے کم ایک تہائی زمین آ چکی ہے۔ ملک کے طول و عرض میں، پاکستان کے ہر کونے میں ایسے مقامات ہیں جہاں لاکھوں کی تعداد میں سیلاب کے مارے بچے بوڑھے جوان خواتین بیمار لاچار اور پانچ لاکھ سے زیادہ حاملہ خواتین یا پانی میں گھرے ہیں یا بے سروسامانی کی حالت میں چٹیل میدان میں کھانے، ٹینٹ اور بستر کے انتظار میں ہیں۔ سڑکیں سیلابی ریلے بہہ لے گئے ہیں، مکان مسمار اور فصلیں پانی تلے فنا! قیامت کا منظر شاید ایسا ہی ہو۔
کم از کم فی الحال اپنی پاک سر زمین کی تو یہی حالت ہے۔ اموات کی گنتی اور تباہی دونوں بڑھے جا رہی ہیں۔ بڑے شہروں میں روزی کی تلاش میں سالوں سے مقیم اب بہت سے لوگ سیلابی علاقوں کی طرف اپنے خاندانوں کو اور مال مویشی کو بچانے نکل پڑے ہیں۔
ابھی آفت ٹلی نہیں ہے کیونکہ ابھی بارشیں جاری ہیں۔ یہ سیلاب کی تباہ کاریاں جو اس وقت تو روکنے سے نہیں رک رہیں۔ یہ تو قدرت کا کام ہے۔
سب پاکستانی، حکومت اور شہری مل کر، سوچ سمحھ کے ساتھ دل کھول کر سیلاب زدگان کی مدد کے لیے سامنے آئیں اور انہیں خدا نے جو نعمتیں دی ہیں وہ اپنے ہم وطنوں کے ساتھ بانٹیں، تاکہ لاکھوں پاکستانیوں کی مشکلات آسان ہو جائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہر آفت میں پاکستانی اپنا بہترین پہلو دکھاتے ہیں۔ انسان دوستی کی، خدا خوفی کی بہترین مثال بن کر دکھاتے ہیں۔ اس سیلاب کی تباہی میں بھی یوں ہی ہے۔ سوشل میڈیا پر نظر دوڑائیں وہاں ان گنت گروپ ہیں جو 24 گھنٹے سیلاب زدگان کے لیے کام پر جذبے اور جنون کے ساتھ لگے ہیں اور جیسے پیغام یہ ہے کہ اب مشکل ہے تو ہم سہارا بنیں گے۔ یہ ہے، پاکستان کا بہترین چہرہ!
ان سب معاملات جنہیں ابھی بھی بہت وقت، وسائل، لگن اور محنت درکار ہے سنبھالنے کے لیے ساتھ میں ہی پاکستان کو ایک بےانتہا سنگین معاملہ بھی در پیش ہوتا نظر آ رہا ہے جو فوری توجہ کا حامل ہے۔
یہ مسئلہ ہے امراض کا پھیلاؤ۔ جہاں لوگ اور حکومتی ادارے بشمول فوج مل کر سیلاب زدگان کے علاج کی طرف متوجہ ہیں وہاں ایک سنگین معاملے کی نشاندہی لاہور کے آرمی ہسپتال میں کچھ روز پہلے کی گئی۔
سندھ کے حکام کی جانب سے جمعرات کو جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق صوبے میں صرف 24 گھنٹے کے دوران تک 90 ہزار سے زیادہ اسہال کے کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔
اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے ایک بیان میں تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لیے بنائے گئے پناہ گزین کیمپوں میں اسہال، ہیضہ، جلد کی بیماریاں اور پانی سے پھیلنے والے امراض پھوٹنے کا خدشہ ہے۔
پاکستان میں ڈینگی بخار اور ملیریا کا بھی خطرہ موجود رہتا ہے۔ جگہ جگہ پانی کھڑا ہے جو مچھروں کی آماج گاہ بن سکتا ہے۔ ڈینگی بخار کا مچھر صاف پانی میں پھلتا پھولتا ہے مگر ملیریا کا مچھر گندے پانی میں افزائش کر سکتا ہے، اس لیے اس کے پھیلنے کا بھی امکان موجود ہے۔
کرونا کا خطرہ بھی ابھی تک سر پر منڈلا رہا ہے۔ کیمپوں میں بھیڑبھاڑ اور حفظانِ صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اس کی لہر بھی متاثرین کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
اس کے علاوہ پنجاب میں کانگو بخار پھیلنے کی بھی اطلاعات ہیں تاہم سرکاری سطح پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔
براہ کرم ماسک اور بند جوتے پہنیں، گھر میں داخل ہوں تو اپنے جوتے مرکزی دروازے کے باہر چھوڑ دیں۔ اپنے ہاتھ باقاعدگی سے صابن سے دھوئیں اور ان کی صفائی کریں۔ باہر سے آتے وقت، اپنے دفتر یا گھر میں اپنے کپڑوں اور جوتوں کو ٹِکس کے لیے جراثیم کش اسپرے سے چھڑکیں۔ مولڈنگز، کونوں، تاریک جگہوں اور کھڑکیوں کی کھڑکیوں وغیرہ پر سپرے کریں۔ براہ کرم اسے سنجیدگی سے لیں۔ یہ بہت حقیقی ہے۔
پاکستان کو یقیناً پہاڑ جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اب شاید حکومت کی سربراہی میں نیشنل کمانڈ اینڈ کوارڈینیشن سینٹر کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس پیچیدہ صورت حال کو ویسے ہی شکست دی جا سکے جیسے پاکستان نے کرونا کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔