ولادی میر پوتن نے خبردار کیا ہے کہ اگر روسی توانائی کی عالمی سطح کی قیمتوں میں کمی کی گئی تو کریملن تیل اور گیس کی سپلائی بند کر دے گا۔
یورپی یونین فی الحال اس بات پر غور کر رہی ہے کہ آیا یوکرین کی جنگ کے دوران روسی فنڈز کو محدود کرنے اور لوگوں کے لیے گیس کی بڑھتی ہوئی قیمت کو کم کرنے کے لیے سخت اقدامات کو نافذ کرنا ہے۔
تاہم، جرمنی نے پہلے ہی عندیہ دیا ہے کہ وہ اس خیال کے بارے میں ’شک میں مبتلا‘ ہے۔
روس میں، پوتن نے یورپ کی تجویز کو ’احمقانہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ روس کو اپنے سپلائی کے معاہدوں کو ترک کرنے پر مجبور کرے گا۔
پوتن نے مشرقی شہر ولادی ووستوک میں ایک اقتصادی فورم سے خطاب میں کہا کہ ’اگر یہ ہمارے مفادات سے متصادم ہو تو ہم کسی بھی چیز کی فراہمی نہیں کریں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہم گیس، تیل، کوئلہ، ہیٹنگ آئل سپلائی نہیں کریں گے - ہم کچھ بھی سپلائی نہیں کریں گے۔
’ہمارے پاس صرف ایک کام باقی رہ جائے گا: جیسا کہ مشہور روسی پریوں کی کہانی میں ہے، ہم بھیڑیے کی دم کو منجمد کرنے کی سزا دیں گے۔‘
طویل عرصے تک رہنے والے رہنما نے اس بات پر اصرار کیا کہ روس نے یوکرین کی جنگ سے کچھ نہیں کھویا ہے اور یہ کہا کہ دنیا کا مستقبل ایشیا پیسیفک کے ساتھ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی تعلقات میں ناقابلِ واپسی اور حتیٰ کہ ٹیکٹونک تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ’متحرک، امید افزا ممالک اور دنیا کے خطوں، بنیادی طور پر ایشیا پیسیفک خطے کے کردار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔‘
روس کے صدر ولادی میر پوتن نے کہا ہے کہ مغرب کے لیے روس کو تنہا کرنا ’ناممکن‘ ہو گا کیوں کہ وہ نئے مواقع کے لیے مشرقی وسطیٰ اور ایران کی طرف رجوع کرے گا۔
بدھ کو روسی شہر ولادی وستوک میں صدر پوتن نے دوٹوک الفاط میں کہا کہ روس نے یوکرین کے خلاف جنگ میں کچھ نہیں کھویا۔ 69 سالہ روسی صدر نے مغربی پابندیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں روس کو قابو میں رکھنے کی ’بے کار‘ کوشش قرار دیا۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو جارحیت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ’میں مغربی پابندیوں کے بخار کے بارے میں بات کر رہا ہوں، دوسرے ملکوں پر مخصوص رویہ مسلط کرنے کی ڈھٹائی سے کی جانے والی جارحانہ کوشش کے ساتھ، تا کہ انہیں ان کی خود مختاری سے محروم کر کے مرضی کا تابع بنا دیا جائے۔‘
روسی صدر کا کہنا تھا کہ ’تمام بین الاقوامی تعلقات میں ناقابل واپسی بلکہ زبردست تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔‘
’دنیا کے متحرک، امید افزا ممالک اور خطوں کے کردار، بنیادی طور پر ایشیا بحرالکاہل کے علاقے کے کردار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔‘
اگرچہ مغربی پابندیوں کا روسی معیشت پر کچھ اثر پڑا ہے اور نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کریملن بڑے پیمانے پر توانائی فروخت کر کے اپنے اخراجات پورے کر رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل، اس ہفتے سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر (کریا) نے کہا تھا کہ روس نے 24 فروری کو جنگ کے آغاز کے بعد سے تیل، گیس اور کوئلے سے 141 ارب پاؤنڈ کمائے۔ فن لینڈ کے تھنک ٹینک کا اندازہ ہے کہ ماسکو نے یوکرین پر حملے پر 86 ارب پاؤنڈ خرچ کیے۔ یہ رقم اس سے کہیں کم ہے جو اس نے توانائی فروخت کر کے حاصل کی۔ یہ تحقیق ایسے وقت سامنے آئی ہے جب روس کے وزیر توانائی میکسم ریشتنیکوف نے ملک کی مجموعی قومی پیدوار کے بارے میں کہا کہ اس سال اس میں وہ کمی نہیں ہو گی جس کی قبل ازیں پیشگوئی کی گئی۔
کریملن کا ماننا ہے کہ 2022 میں روسی مجموعی قومی پیداوار میں 2.9 فیصد کمی آئے گی۔ یہ کمی 4.2 فیصد سے کم ہے جس کی اس نے اگست میں پیشگوئی کی۔
تاہم صدر پوتن نے بدھ کو اپنی تقریر میں اعتراف کیا کہ مغربی پابندیوں کے نتیجے میں صنعتوں اور بعض دوسرے شعبوں کے لیے مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران اور شمالی کوریا جیسے ملکوں سے ہتھیاروں اور دوسرے جنگی سامان کی خریداری سے روس کی پریشانی کا اظہار ہوتا ہے۔
قبل ازیں اس ہفتے بائیڈن انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ ماسکو شمالی کوریا سے ہزاروں راکٹ خرید رہا ہے۔ مبصرین کا کہنا تھا کہ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ روس فوجی رسد میں ہاتھ پیر مارنے میں مصروف ہے۔
انسٹیٹیوٹ فار دا سٹڈی آف وار سے وابستہ محقق میسن کلارک کے مطابق: ’کریملن کو اس بات سے ہوشیار رہنا چاہیے کہ چاہے کوئی چیز بھی ہو، اسے شمالی کوریا سے خریدنے پڑے گی۔‘
© The Independent