انڈین تنقید کے باوجود امریکہ کا پاکستان سے ایف 16 ڈیل کا دفاع

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے پاکستان کے لیے منظور کی گئی 45 کروڑ ڈالر کی ایف 16 ڈیل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیکج پاکستان کے موجودہ فضائی بیڑے کی دیکھ بھال کے لیے ہے۔

 امریکی سکریٹری آف سٹیٹ انٹینی بلنکن (دائیں) اور انڈیا کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر 27 ستمبر 2022 کو واشنگٹن ڈی سی میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے (اے ایف پی)

امریکہ نے اپنے اتحادی انڈیا کی تنقید کے باوجود ماضی کی طرح ایک بار پھر پاکستان سے ایف 16 جنگی طیاروں کے سپورٹ پروگرام کی حالیہ ڈیل کا دفاع کیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اپنے پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ملاقات کے ایک دن بعد انڈیا کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر سے ملاقات کی۔

اینٹنی بلنکن نے رواں ماہ کے آغاز میں پاکستان کے لیے منظور کی گئی 45 کروڑ ڈالر کی ایف 16 ڈیل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیکج پاکستان کے موجودہ فضائی بیڑے کی دیکھ بھال کے لیے ہے۔

بلنکن نے اپنے انڈین ہم منصب سبرامنیم جے شنکر کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس میں کہا: ’یہ نئے طیارے، نیا نظام، نئے ہتھیار نہیں ہیں، یہ اس سب کو کار آمد رکھنے کے لیے ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا پروگرام پاکستان یا خطے سے پیدا ہونے والے دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔ ان خطرات کا بڑھنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔‘

انڈین وزیر خارجہ جے شنکر نے عوامی سطح پر اپنے امریکی ہم منصب پر تنقید نہیں کی، لیکن اتوار کو امریکہ میں انڈین برادری کے لیے منعقدہ ایک استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے امریکی موقف کے بارے میں کہا: ’آپ کسی کو بےوقوف بنانے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔‘

انہوں نے انڈیا کے خلاف فوجی بیڑے کی پوزیشننگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’کسی کا یہ کہنا ہے کہ میں ایسا انسداد دہشت گردی کے لیے کر رہا ہوں، جب آپ ایف 16 کی صلاحیت جیسے طیارے کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو ہر کوئی جانتا ہے کہ انہیں کہاں تعینات کیا گیا ہے۔‘

جے شنکر نے مزید کہا: ’ایمانداری سے کہوں تو یہ ایک ایسا رشتہ ہے جس سے نہ تو پاکستان کو فائدہ ہو رہا ہے اور نہ ہی امریکی مفادات کو۔‘

پاکستان کی فوج امریکی سازوسامان پر انحصار کرتی ہے لیکن افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری امریکی جنگ کے دوران تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے، واشنگٹن کا خیال تھا کہ اسلام آباد میں موجود عناصر نے کبھی بھی طالبان کی حمایت ختم نہیں کی۔

ماضی میں انڈیا نے روس سے فوجی سازوسامان خریدا اور امریکہ پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ روس سے ’اہم‘ فوجی سازوسامان خریدنے والے کسی بھی ملک کے لیے 2017 کے قانون کے تحت ضروری پابندیاں نہ لگائے۔

اینٹنی بلنکن کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بات کرتے ہوئے جے شنکر نے کہا کہ ’حالیہ برسوں میں انڈیا نے امریکہ، فرانس اور اسرائیل سے بھی خریداری کی ہے۔‘

انہوں نے ’جیوپولیٹیکل تناؤ‘ کی وجہ سے کسی بھی تبدیلی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم معیار اور خریداری کی شرائط کا جائزہ لیتے ہوئے اس چیز  کا ’انتخاب کرتے ہیں جو ہمارے خیال میں ہمارے قومی مفاد میں ہے۔‘

1990 کی دہائی کے آخر سے امریکہ نے چین کے عروج سے لے کر اسلامی انتہا پسندی کے خطرے تک کے معاملات پر دنیا کی دو بڑی جمہوریتوں کے مابین مشترکہ مقاصد کو دیکھتے ہوئے انڈیا کے ساتھ تعلقات کو اپنا اولین مقصد بنا رکھا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکہ نے یوکرین پر حملے کے بعد سے روس کے ساتھ انڈیا کے مسلسل تعلقات پر بڑی حد تک آنکھیں بند کر رکھی ہیں لیکن اسے اس وقت خوشی ہوئی جب وزیر اعظم نریندر مودی نے حال ہی میں صدر ولادی میر پوتن سے کہا کہ یہ ’وقت جنگ کا نہیں۔‘

جے شنکر نے کہا کہ انڈیا نے اقوام متحدہ اور ترکی کی زیرقیادت مذاکرات کے دوران روس کے ’ساتھ بات کی‘ تھی، جس کے باعث بحیرہ اسود سے اناج کی ترسیل کھل گئی تھی۔ شاید ان کا مقصد اس جانب اشارہ کرنا تھا کہ ’انڈیا پس پردہ کام کر رہا ہے۔‘

وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا کہ انڈیا اپنے بین الاقوامی تعلقات کو وسعت دے رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اور بھی بہت سے شعبے ہیں جہاں ہم امریکی مفادات کے ساتھ منسلک ہوں گے۔  یہ ہمارے باہمی فائدے کے لیے ہے۔‘

مودی کے دور حکومت میں انسانی حقوق کے متعلق تشویش کی وجہ سے امریکی کانگریس میں انڈیا کے لیے کسی دور میں موجود مضبوط حمایت میں دراڑ نظر آئی ہے۔

اینٹنی بلنکن نے اس مسئلے پر سنجیدگی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دونوں ممالک کو بنیادی اقدار بشمول مذہبی اور عقیدے کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی جیسے انسانی حقوق کا احترام کرنا چاہیے، جس سے ہماری جمہوریتیں مضبوط ہوتی ہیں۔‘

جے شنکر نے بالواسطہ جواب دیا کہ دونوں ممالک ’تاریخ، روایت اور معاشرتی سیاق و سباق‘ کے لحاظ سے جمہوریت کے لیے پرعزم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’انڈیا اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ جمہوریت کی افادیت یا معیار کا فیصلہ ووٹ بینک کو کرنا چاہیے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ