روٹی کی قیمت بڑھانے کے لیے پشاور انتظامیہ نے کیا تجربہ کیا؟

ڈپٹی کمشنر پشاور محمد علی اصغر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کا محکمہ فیصلے کرنے میں خواہشات پر نہیں بلکہ منطق پر چلتا ہے۔

(اے ایف پی)

کل یعنی بدھ کو پاکستان  کی وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں پاکستان سے گندم اور آٹے کی برآمدات پر پابندی لگانے کی منظوری دی گئی ہے اور ساتھ ہی  یوریا کی قیمت بھی 1800 روپے فی من مقرر کر دی گئی ہے۔

اگرچہ خیبر پختونخوا کے بازاروں میں یوریا کا آج کا نرخنامہ بھی پرانی قیمت یعنی دو ہزار روپے فی من چل رہا ہے لیکن کچھ ہی دنوں کے اندر کسان ایک بوری 18 سو میں خرید سکیں گے۔

دوسری جانب، پنجاب کی جانب سے  پاکستان کے اندر گندم کی نقل و حمل پر جو پابندی لگائی گئی تھی اس میں بھی نرمی لائی جا رہی ہے۔ اس تمام صورتحال کو مد نظر رکھ کر عام عوام یہ توقع ظاہر کر رہے ہیں کہ روٹی کی قیمت بھی ایک مرتبہ پھر کم کر دی جائے گی۔

تاہم، فی الحال پشاور میں روٹی کی قیمت اور وزن کے معاملے پر انتظامیہ اور حکم عدولی کرنے والے نانبائیوں کے درمیان جنگ جاری ہے۔

جس کے نتیجے میں پچھلے چار دنوں میں 200 کے قریب نانبائی گرفتار ہو چکے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر پشاور کے مطابق اس رویے میں مزید سختی لائی جا رہی ہے، اور اب نافرمانی کرنے والوں کو 15 دن سے ایک مہینے تک جیل کی سزا کاٹنی پڑ سکتی ہے۔

 انتظامیہ کا یہ ردعمل اس وقت دیکھنے میں آیا جب نانبائیوں نے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کم وزن روٹی زیادہ قیمت میں فروخت کرنا شروع کیا۔ حالانکہ پچھلے ہفتے نانبائیوں کی جانب سے سستی روٹی کے خلاف ہڑتال کے بعد نانبائی ایسوسی ایشنز اور انتظامیہ کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ روٹی کی قیمت 15 ہوگی لیکن وزن اس کا 190 گرام ہوگا۔

حکومت اور نانبائیوں کے درمیان جاری اس لڑائی کے بیچ عام آدمی کشمکش میں مبتلہ نظر آتا ہے۔ اسے اور کچھ سمجھ نہیں آ رہا سوائے اس کے کہ روٹی مہنگی ہو گئی ہے۔ لہذا  وہ کبھی نانبائیوں کو اور کبھی حکومت کو کوس رہا ہوتا ہے۔

روٹی کا وزن کم سے کم تر ہو جانے اور قیمتیں زیادہ ہونے کے خلاف پشاور کے ایک رہائشی آفاق حسین نے ہائیکورٹ میں درخواست بھی دائر کی تھی۔ جس کی سماعت کے دوران کل جسٹس مسرت ہلالی نے ڈپٹی کمشنر محمد علی اصغر کو ریکارڈ سمیت طلب کر لیا ہے۔

انھوں نے ریمارکس دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پرائس ریویو کمیٹی اور منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لیے بغیر روٹی کی قیمت میں پانچ روپے اضافہ کیوں کیا گیا جبکہ نانبائی تو 12 روپے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

کیا روٹی مہنگی ہونے کی وجہ ٹیکس ہے؟

خیبر پختونخوا کے مزدور طبقے کے خیال میں مہنگائی کی وجہ نیا ٹیکس ہے۔ سید عباس نامی پشاور کے ایک رہائشی نے کہا کہ کم وزن اور مہنگی روٹی کی وجہ ٹیکس ہی ہے۔ خود نانبائیوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو باور کرانے کی کوشش کی کہ آٹے اور گیس پر ٹیکس لگایا گیا ہے اسی لیے روٹی کی قیمت بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

کچھ یہی تاثرات راہ گیروں، ٹیکسی چلانے والوں اور دکانداروں کے بھی تھے کہ ’جناب ٹیکس لگایا گیا ہے ٹیکس۔‘

تو کیا واقعی آٹے، گیس اور دوسرے سامان پر ٹیکس لگ گیا ہے؟  یا پھر قیمتیں بڑھی ہیں۔ یہ بہت اہم سوال ہے اور اس میں فرق جاننا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ کیوں کہ ٹیکس حکومت لگاتی ہے۔ جب کہ چیزوں کی قیمتیں بڑھنے کا انحصار کئی اور عوامل پر بھی ہوتا ہے۔

پاکستان میں ٹیکس لگانے کی ذمہ داری وفاقی ادارے ایف بی آر (فیڈرل بیورو آف ریوینیو)  کی ہوتی ہے۔ لہذا عوام کی معلومات میں اضافہ کرنے اور ان کی ٹیکس کے حوالے سے شکوک و شبہات دور کرنے کے لیے ایف بی آر کے دفتر نے بتایا کہ آٹے، میدے، سوجی پر ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے۔ البتہ اشیا کی قیمتیں بڑھی ہیں۔ جس کے پیچھے کئی اور وجوہات ہیں۔

ایف بی آر دفتر نے یہ بھی بتایا کہ پہلے تاجر ٹیکس نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ جنرل سیلز ٹیکس بھی عوام سے لے کر حکومت کو نہیں دے رہے تھے۔ اب چونکہ ٹیکس لینے کا طریقہ کار شفاف بنایا جا رہا ہے لہذا زیادہ تر تاجر اور ان کے ہمدرد  پروپیگنڈا کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ حکومت نے نیا ٹیکس لگایا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

روٹی مہنگی ہونے کے پیچھے دیگر وجوہات کیا ہیں؟

اس وقت پشاور کے بازاروں میں فائن آٹے کی ایک بوری کی قیمت 3500 سے بڑھ کر 4600 روپے چل رہی ہے۔ یعنی کُل 1100 روپے کا اضافہ ہو گیا ہے۔ دوسری جانب گیس کی قیمتیں خصوصی طور پر کمرشل گیس کی قیمتیں بھی ایک مہینہ قبل بڑھ گئی تھیں۔

 اوگرا (آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی) کی یکم جولائی 2019 کے اعلامیے کے مطابق کمرشل  گیس کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ یعنی پہلے اگر کسی کا بل 20 ہزار آتا تھا اب وہ بل 60 ہزار آئے گا۔ اوگرا کے  تمام اعلامیے اس ادارے کی ویب سائٹ پر موجود ہیں جہاں نئی اور پرانی تمام قیمتوں کی تفصیل پڑھی جا سکتی ہے۔

بجلی کی قیمتوں کی طرح گیس کی قیمتیں ہر دو مہینے بعد بدلتی رہتی ہیں۔ اس پر ایک جنرل سیلز ٹیکس ہوتا ہے لیکن حکومت نے دونوں پر سبسڈی بھی رکھی ہوئی ہے۔ لیکن اب کافی عرصے سے بین الاقوامی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف پاکستان پر زور دے رہا ہے کہ وہ یہ سبسڈی ختم کر دے۔

اس کی وجہ وہ یہ بیان کر رہے ہیں کہ اس وقت پاکستان کی معاشی حالت ایسی نہیں ہے کہ یہ سبسڈی برداشت کر سکے۔

ان تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے سوال یہ بنتا ہے کہ کیا گیس، آٹا، ٹرانسپورٹ، تنخواہیں سب مہنگا ہونے کے بعد  نانبائی 15 روپے میں کم وزن روٹی بیچنے میں حق بجانب ہیں؟

 

پشاور کی انتظامیہ نے روٹی کی قیمت 15 اور اس کا وزن 190 گرام کس تجربے کی بنیاد پر کیا؟

اس سوال پر ڈپٹی کمشنر پشاور محمد علی اصغر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کا محکمہ فیصلے کرنے میں خواہشات پر نہیں بلکہ منطق پر چلتا ہے۔

’لہذا یہ سوال کہ کہیں نانبائیوں کے ساتھ نا انصافی تو نہیں ہو رہی، ذرا غور سے سنیے ہم نے کیا کِیا۔ روٹی کا نرخ اور اس کا وزن ہم نے ایک تجربے کی بنیاد پر طے کیا۔ فوڈ ڈیپارٹمنٹ والے دکان سے آٹے کی بوری خرید کر اس کو ٹرانسپورٹ کرکے نانبائی کے تندور تک لے آئے۔‘

’پھر مزدور نے تمام بوری سے آٹا گوندھ کر اس سے 670 پیڑے بنائے اور  پھر اس کو پکایا۔ یعنی ایک پورے پروسس سے روٹی کو گزارا۔ اس دوران ہم نے ایسوسی ایشنز والوں کو بٹھایا ہوا تھا۔ تمام جمع تفریق کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ روٹی کی قیمت 15 ٹھیک ہے اور اس کا وزن 190 گرام ہونا چاہیے۔ کیوں کہ تمام خرچے شامل کرنے کے باوجود ان کو منافع مل رہا ہے۔‘

ڈپٹی کمشنر نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ نانبائی ایسوسی ایشنز والے خود مان گئے تھے کہ یہ قیمت اور وزن ٹھیک ہے لہذا اسی لیے اب جب نافرمانی کرنے پر نانبائیوں کو گرفتار کیا جاتا ہے تو ایسوسی ایشن والے کچھ نہیں کہتے بلکہ ہمارا ساتھ دیتے ہیں۔

’اب رہی بات یہ کہ ہم نے پانچ روپے کا اضافہ کیوں کیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم نے روٹی کی قیمت فکس کرنے کے لیے تجربہ کیا تو معلوم ہوا کہ 10 روپے میں آج کل کے حساب سے ان کا  منافع صفر تھا۔ ہم نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ اگر مہنگائی بڑھنے سے اور لوگ متاثر ہو رہے ہیں تو نانبائی بھی اس کی زد میں آگیا ہے۔ مزدور کی تنخواہ بھی 15 ہزار سے ساڑھے 17 ہزار ہو گئی ہے۔ پہلے جہاں ایک ہزار میں ایک نانبائی کا گزارہ ہو رہا تھا اب اس ایک ہزار میں اس کا گزارہ نہیں ہو رہا۔ ‘

علی اصغر نے مزید بتایا کہ پنجاب میں گندم کی نقل و حرکت کی پالیسی میں نرمی آنے سے گندم کی قیمتیں کم ہونے کا امکان ہے۔ لہذا اگر ایسا ہوا تو ہم پھر سے قیمتوں میں کمی لائیں گے۔

’لیکن اگر آپ باقی شہروں کو دیکھیں جیسے کہ اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور، پشاور میں وہاں سے اب بھی سستی روٹی بیچی جا رہی ہے۔ حالانکہ گندم وہاں کی پیداوار ہے۔ لاہور میں ایک روپے میں 10 گرام روٹی بیچی جا رہی ہے۔ ہم ایک روپے میں 12 اعشاریہ 66 گرام روٹی دے رہے ہیں۔‘

’روٹی کی قیمت مقرر کرنے کے لیے جو تجربہ کیا گیا، اس میں ہم موجود تھے۔ ‘

 صدر نانبائی ایسوسی ایشن کے صدر حاجی اقبال یوسفزی نے بتایا کہ انتظامیہ کی جانب سے جو تجربہ ہو رہا تھا اس میں وہ موجود تھے۔ 

ایک بوری آٹے سے روٹیاں پکائی گئیں۔ اس دوران گیس میٹر پر یونٹس چیک کیے گئے اور ان سے پورے سال کے گیس کے بل بھی طلب کیے گئے۔

حاجی صاحب کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ کو معلوم ہوگا کہ ماہر کاریگر  کی تنخواہ باقی مزدوروں سے زیادہ ہوتی ہے لہذا میری درخواست پر بنیادی تنخواہ ساڑھے 17 ہزار کے علاوہ کاریگر کی زیادہ تنخواہ بھی شامل کر دی گئی۔‘

انھوں نے بتایا کہ وہ چھ مہینے پہلے تک 150 گرام کی روٹی 10 روپے میں بیچ رہے تھے لیکن اب تو گیس کی قیمتیں بھی آسمان پر پہنچ گئی ہیں۔ پہلے ہمارا بل 50 ہزار سے 80 ہزار تک کا آتا تھا۔ لیکن اس دفعہ ایک لاکھ سے اوپر آیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ 15 روپے کی روٹی 190 گرام کرنے سے اگر ان کو کوئی نقصان نہیں ہو رہا تو کوئی خاص منافع بھی نہیں ہو رہا ۔

لہذا وہ ارادہ رکھتے ہیں کہ حالات ذرا نارمل ہو جائِیں تو وہ دوبارہ  ڈپٹ کمشنر سے درخواست کریں گے کہ پکی ہوئی روٹی کو 175 گرام تک لے آئیں۔

اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں کیوں بڑھ گئی ہیں؟

جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے کہ ٹیکس حکومتیں لگاتی ہیں لیکن قیمتوں کے بڑھنے کے پیچھے کئی اور عوامل ہوتے ہیں۔ سال 2019 اور 2020 کے مالیاتی سال کے بجٹ میں زیادہ تر چیزوں پر نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود کئی اشیا کی قیمتیں اوپر گئی ہیں۔

جس کی ایک وجہ ڈالر کا مہنگا ہونا بھی ہے۔ چونکہ قرضہ دینے والے ادارے آئی ایم ایف نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ ڈالر کو مزید روپے کے مقابلے میں مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنا بند کر دیا جائے لہذا پاکستان نے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے ڈالر کو اصل قیمت پر لانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس فیصلے کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان  آگیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ  ڈالر کی وجہ سے مہنگائی کس  طرح بڑھی ہے تو جواب یہ ہے کہ  پاکستان جب بھی کوئی سامان باہر سے منگواتا ہے اس کی ادائیگی ڈالر میں کی جاتی ہے۔ چونکہ پاکستان میں درآمدات پر زیادہ انحصار کیا جاتا ہے اس لیے باہر کی اشیا عوام  کو مہنگے داموں ملتی ہیں۔ اکثر لوگ سٹور میں جا کر یہ پوچھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ یہ چیز امپورٹڈ ہے یا پاکستان کا بنا ہوا۔

مہنگائی کی دوسری وجہ تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہے جس کا تعین عالمی مارکیٹ کرتا ہے۔ تیل کی قیمتوں کا اتار چڑھاؤ  پاکستان میں تمام شعبوں اور تمام اشیا کی قیمتوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔

مہنگائی کی تیسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان سے اکثر سامان دوسرے ممالک خاص طور پر افغانستان جاتا ہے۔ سبزیوں، مال مویشیوں سے لے کر آٹے اور گندم تک  افغانستان منتقل ہونا پاکستان میں مہنگائی بڑھنے کا سبب بن گیا ہے۔

ماہرین اقتصادیات امید ظاہر کر رہے ہیں کہ گندم کی برآمدات پر پابندی کے بعد پاکستانی عوام کو ریلیف ملے گا۔ کیونکہ یہی گندم جب پاکستان کے اپنے صوبوں کی ضرورت پورا کرے گی تو ملک میں خوشحالی اور امن آئے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان