’جن کتوں کو آپ خریدتے ہیں، ان سے پیار کیسے کرسکتے ہیں؟‘

انڈیا میں ’سمارٹ سینکچوری‘ کی ڈائریکٹر کاویری رانا بھاردواج مختلف نسلوں کے مہنگے کتوں کی غیر قانونی خرید و فروخت کی بجائے دیسی کتوں کو پالنے سے متعلق بیداری پیدا کر رہی ہیں۔

انڈیا میں دیسی کتوں کے خلاف مختلف عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں، سوسائٹیاں کتوں کو بھگا رہی ہیں، دہلی اور قومی دارالحکومت خطے (این سی آر) میں آوارہ کتوں کو گود لینے کی مہم بڑی زور و شور سے چلائی جا رہی ہے۔

اس مہم میں کتوں کو ریسکیو کرنے والی تنظیموں سے لے کر انہیں گود لینے کے لیے مقامی سطح پر افراد اور رضاکار شامل ہیں۔

’سمارٹ سینکچوری‘ کی ڈائریکٹر کاویری رانا بھاردواج ان ہی رضاکاروں میں سے ایک ہیں، جو پہلے آوار کتوں کو ریسکیو کرتی ہیں اور پھر انہیں سوشل میڈیا کے ذریعے گود لینے والے امیدواروں تک پہنچاتی ہیں۔

ان کا ایک ہی نعرہ ہے کہ ’جن کتوں کو آپ خریدتے ہیں، ان سے پیار کیسے کرسکتے ہیں؟‘

کاویری قومی دارالحکومت خطے بشمول دہلی کے لیے کئی سٹریٹ ڈاگ ایڈاپشن پروگرام چلاتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ لوگوں میں مختلف نسلوں کے مہنگے کتوں کی غیر قانونی خرید و فروخت کی بجائے آوارہ کتوں کو پالنے سے متعلق بیداری پیدا کر رہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ دہلی ہائی کورٹ میں حال ہی میں دیسی کتوں کو ناپسند کرنے والے افراد عرضی لے کر گئے تھے کہ آوارہ کتوں کو سوسائٹیوں سے ہٹایا جائے اور کتوں سے محبت کرنے والے افراد کے ذریعے فیڈنگ کو روکا جائے، جسے ہائی کورٹ نے خارج کر دیا اور پھر اسے سپریم کورٹ نے بھی یہ کہتے ہوئے تسلیم کیا کہ کتوں کو ان کے ہی خطے سے کیسے نکالا جاسکتا ہے۔

کاویری کتوں سے اپنی محبت کی داستان سناتے ہوئے کہتی ہیں: ’کتے مجھے دیکھ کر خود بہ خود پرسکون ہوجاتے ہیں۔ کتوں کی محبت مجھ میں رچی بسی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں: ’میں جب بھی کسی گلی میں جاتی ہوں، کتے میرے پاس خود آجاتے ہیں۔ لوگ مجھے کبھی کال کرتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ ان کی گلی میں کتے کاٹ رہے ہیں، میں وہاں جاتی ہوں تو تصویر ہی بدل جاتی ہے، کتے میری گود میں چڑھ جاتے ہیں، کوئی پپیاں دے رہا ہے، کوئی جھپیاں دے رہا ہے، کوئی کان وان کھجوا رہا ہے۔‘

انہوں نے کتوں کو گود لینے کے ٹرینڈ کے بارے میں بتایا کہ ’انڈیا میں کتوں کو گود لینا ابھی بھی ایک نئی چیز ہے، لیکن اب یہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ لوگ کتے خرید کر لاتے ہیں، وہ سوچتے ہیں کہ ان کے پڑوسی کے یہاں سائن برناڈ ہے تو وہ سائبرین ہسکی لے آئیں۔ یہ صرف سماجی حیثیت ثابت کرنے کے لیے ہوتا ہے۔‘

کاویری کا دعویٰ ہے کہ پالنے کے لیے دیسی کتے سب سے بہتر ہوتے ہیں۔

’انڈیا کے کتے زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ وہ ہمارے 500 سے زیادہ الفاظ سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب میں گھر میں ہوتی ہوں تو میں ’چلو‘ لفظ نہیں بولتی، ’چابھی‘ نہیں بولتی۔ ’جانا ہے‘ نہیں بولتی، کیونکہ یہ بولتے ہی وہ کتے کھڑے ہوجائیں گے اور بولیں گے ہم بھی چلیں گے۔ یہ کتے بہت ذہین ہوتے ہیں اور وفادار بھی۔‘

کاویری کی طرح رادھیکا شرما بھی ہیں، جنہیں انڈین نژاد کتے بہت پسند ہیں۔

انہوں نے اب تک پانچ دیسی کتے گود لیے ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’جیسا لوگوں میں اچھی نسل کے کتوں کو پالنے کا شوق ہوتا ہے ویسے ہی مجھے بھی تھا۔ میری زندگی میں سب سے پہلا کتا ڈوبرمین ڈاگ تھا۔ تب مجھے ڈاکٹر نے بولا کہ ڈوبرمین کی زندگی مختصر ہی ہوتی ہے اور میں سوچ رہی تھی کہ 16 یا 17 سال تک تو رہے گا۔

’پھر جب بڑی ہوگئی تو مجھے لگا کہ ایک لیبرا ڈاگ تو ہونا چاہیے۔ تو ایک لیبرا ڈاگ بھی رکھا جو ایک حادثے میں مر گیا۔ اس کے بعد میں نے صرف دیسی کتے لیے۔ مجھے لگتا ہے کہ دیسی کتے ہمارے اپنے ہیں۔‘

رادھیکا نے اپنے کتے کا نام جونیئر رکھا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’دیسی کتوں پر زیادہ خرچ نہیں آتا۔ وہ گھر کا کھانا کھاتے ہیں اور زیادہ باتیں سمجھتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا