زاہدان میں بدامنی: ایران نے پاکستانی شہریوں کے لیے سرحد بند کر دی

تفتان میں حکام نے بتایا کہ ایران سے لوگوں کو پاکستان آنے کی اجازت ہے تاہم یہاں سے کسی کو ایران داخل ہونے نہیں دیا جا رہا۔

پاکستان کے حکام نے اتوار کو بتایا کہ سرحد سے متصل ایران کے صوبے سیستان بلوچستان کے شہر زاہدان میں پر تشدد واقعات کے بعد پاکستان کے سرحدی علاقوں میں صورت حال ’معمول‘ کی ہے۔

کمشنر رخشان ڈویژن سیف اللہ کھیتران نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تفتان اور دوسرے سرحدی علاقوں میں ایران سے لوگوں کے انخلا کی کوئی غیر معمولی صورت حال نہیں۔

ادھر سرحد پر موجود سکیورٹی حکام نے بتایا کہ ایران نے پاکستان سے آنے والوں کے لیے امیگریشن سروس بند کر دی ہے۔ تاہم ایران سے لوگوں کی معمول کی نقل و حرکت جاری ہے۔

ناروے میں قائم غیر سرکاری تنظیم ’ایران ہیومن رائٹس‘ (آئی ایچ آر) این جی او نے بتایا کہ ایران کی سکیورٹی فورسز نے صوبے سیستان بلوچستان کے شہر زاہدان میں ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم 41 افراد کو ہلاک کیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آئی ایچ آر نے ایرانی سکیورٹی فورسز پر الزام لگایا کہ وہ زاہدان میں نماز جمعہ کے بعد شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے کو ’خون ریزی کے ذریعے دبانے‘ کی کوشش کر رہی ہیں۔

رپورٹس کے مطابق یہ ہنگامے سیستان بلوچستان صوبے کے ساحلی شہر چابہار کے ایک پولیس سربراہ کی جانب سے ایک 15 سالہ لڑکی کے ساتھ مبینہ ریپ کے بعد پھوٹ پڑے تھے۔

رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں افراد کی شناخت کی تصدیق علاقائی این جی او ’بلوچ ایکٹوسٹ کمپین‘ (بی اے سی) نے کی۔

دوسری جانب ایران کا کہنا ہے کہ پرتشدد واقعات میں پاسداران انقلاب کے پانچ اہلکار مارے گئے، جسے سرکاری میڈیا ’دہشت گردی‘ قرار دے رہا ہے۔

سیستان بلوچستان میں بلوچ اکثریتی آبادی رہتی ہے اور یہ پاکستان کے صوبے بلوچستان سے متصل ہے۔

پاکستان اور ایران کے درمیان یہاں سے تفتان، کیچ، پنجگور، گوادر کے سرحدی دروازے موجود ہیں.

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ضلع چاغی کے علاقے تفتان میں سرحد کی نگرانی کے ذمہ دار حکام نے بتایا کہ ایرانی حکام نے موجودہ صورت حال میں امیگریشن کا سلسلہ بند کردیا ہے جس کی وجہ سے ایران سے لوگوں کو آنے کی اجازت ہے لیکن پاکستان سے کسی کو داخل نہیں ہونے دیا جا رہا۔

انہوں نے بتایا کہ ابھی تک اس سلسلے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں ہوا۔

ضلع چاغی میں دالبندین کے ایک رہائشی نے بتایا کہ ان کی فیملی کے بہت سے لوگ سیستان اور زاہدان میں رہائش پذیر ہیں۔ جن کے حوالے سے انہیں کسی قسم کی اطلاع موصول نہیں ہورہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ بدامنی کی لہراور فورسز کے ساتھ جھڑپوں کی اطلاعات مزید پریشان کررہی ہیں۔ اس سے قبل ایک دو روز کے بعد فیملی کے افراد سے رابطہ ہوجاتا تھا لیکن جمعے کے بعد سےاب تک کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

انہوں نے بتایا کہ سرحدی علاقوں کے لوگوں کو اس سے قبل راہداری کے ذریعے ایران جانے کی اجازت تھی لیکن وہ بھی کرونا کی وبا کے باعث بند ہے۔ جبکہ اکثر لوگ ویزا کے ذریعے جانے کی سکت نہیں رکھتے ہیں۔

ایرانی سرحد سے متصل نوکنڈی کے رہائشی، جن کے رشتہ دار ایرانی بلوچستان کے علاقے زاہدان میں مقیم ہیں، وہ ان کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں۔ 

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایران میں جاری بدامنی کا معاملہ کئی ہفتوں سے چل رہا ہے تاہم جعمے کے روز جھڑپوں اور وہاں سے رابطہ ہونے پر انہیں اپنے عزیزوں کی خیریت کے حوالے سے تشویش ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ جب سے زاہدان میں جھڑپیں اور لوگوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ اس کے بعد نیٹ ورکس بند ہونے سے ان کا کوئی رابطہ نہیں ہوا، وہاں سے سوشل میڈیا پر جاری ویڈیوز نے انہیں پریشانی کا شکار کردیا ہے۔ 

زاہدان میں مقیم ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شہر میں واقع عید گاہ میں نماز جمعہ کے خطبے کے دوران خطیب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی اہلکار نے چاہ بہار میں ایک بلوچ لڑکی کا ریپ کیا ہے۔

ان کے مطابق خطیب نے کہا کہ یہ اقدام بلوچ قوم کی ناموس پر حملہ ہے لہٰذا عوام اس پر پرامن احتجاج کریں، جس پر نماز کے بعد لوگ احتجاج کرنے لگے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس دوران مظاہرین مقامی تھانے کی طرف گئے اور اس پر دھاوا بول دیا۔ جس پر ایرانی فورسز نے فائرنگ کی اور 40 طلبہ ہلاک ہو گئے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 100 سے زائد ہوسکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان