ایرانی سرحد پر فائرنگ سے ہلاکتیں، سیستان بلوچستان میں حالات کشیدہ 

ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے شہر سراوان میں گذشتہ روز فائرنگ سے متعدد ہلاکتوں کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے اور مظاہرین نے آج سرکاری دفاتر میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔

ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان کے شہر سراوان میں گذشتہ روز سرحد پر فائرنگ سے تیل کا کاروبار کرنے والے کئی افراد کی ہلاکت کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے اور مظاہرین نے منگل کو سرکاری دفاتر میں توڑ پھوڑ کے علاوہ گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔

سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز میں مظاہرین کو سراوان کے گورنر کے دفتر میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ ویڈیو میں لوگ بلند آواز سے فارسی زبان میں احتجاج کرتے ہوئے وہاں موجود سرکاری افسران سے کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ فارسی کی ایک رپورٹ کے مطابق پیر (22 فروری) کو صوبہ سیستان بلوچستان کے شہر سراوان کے سرحدی علاقے سکان کے زیرو پوائنٹ پر سرحدی فورسز کی فائرنگ سے متعدد بلوچ باشندے ہلاک اور زخمی ہوئے۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پیر کی صبح تیل کے سمگلر سرحدی علاقے میں جمع ہوئے اور سرحد کو کھولنے کا مطالبہ کیا۔ اس دوران کشیدگی بڑھ گئی اور سرحدی فورسز نے فائرنگ کردی۔

واضح رہے کہ سیستان بلوچستان کے انقلابی گارڈز نے، جنہیں مرساد کے نام سے جانا جاتا ہے، تیل کے ٹرکوں کو سرحد سے گزرنے سے روک دیا ہے جبکہ سرحد سے تیل کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے گڑھے کھود دیے گئے ہیں۔

انڈپینڈنٹ فارسی کی رپورٹ میں غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 37 بتائی گئی ہے جبکہ بعض ذرائع یہ تعداد 50 سے زائد بتاتے ہیں۔

پاکستان کے ضلع پنجگور کے ایک صحافی قادر بخش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فائرنگ کے واقعے میں ایک پاکستانی شخص زخمی ہوا، جسے پنجگور کے ہسپتال میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔ بہادر شمسی نامی یہ شخص بلوچستان کے ضلع خاران کا رہائشی ہے۔

ایران میں مقامی افراد کی طرف سے جاری ایک فہرست میں 10 ہلاک شدگان اور پانچ زخمیوں کے نام جاری ہوئے ہیں تاہم ہلاکتوں اور زخمیوں کی ایرانی سرکاری ذرائع نے تصدیق نہیں کی۔

ایران انٹرنیشنل کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پوسٹ کی گئی ایک ٹویٹ میں بتایا گیا کہ سیستان بلوچستان کے نائب پولیس چیف کے مطابق ایران میں متحرک ایران مخالف گروپ جیش العدل اور کچھ منافع خور افراد نے ان مظاہرین کو ’اکسایا‘۔ انہوں نے بتایا کہ  فائرنگ سے دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے  جبکہ آزاد ذرائع نے ہلاکتوں کی تعداد 10 بتائی ہے۔ 

دوسری جانب بلوچستان کے رکن صوبائی اسمبلی اور اپوزیشن رہنما ثنا اللہ بلوچ نے ایک ٹویٹ میں ایرانی بلوچستان میں فائرنگ کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ایرانی حکومت واقعے کی تحقیقات کرکے 12 افراد کی ہلاکت میں ملوث افراد کو سزا دے۔

انہوں نے پاکستان اور ایرانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ سرحد کے دونوں اطراف میں موجود بلوچ معاشی مسائل کا شکار ہیں، دونوں ممالک کو ان کی بے روزگاری اور بھوک کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔

انڈپینڈنٹ فارسی کے مطابق تیل لے جانے والے بلوچ افراد پر فائرنگ اس وقت ہوئی جب اسلامی انقلابی گارڈ کور کے کمانڈر نے تیل لے جانے والے افراد کے لیے ’رزاق منصوبے‘ کا اعلان کیا۔

 اس نئے منصوبے کے تحت سرحدی کراسنگ پر ایندھن کے سٹیشن قائم کیے جائیں گے اور پاکستان کو ایندھن کی فروخت کو باضابطہ شکل دی جائے گی۔ رزاق منصوبے سے صرف سرحد سے 20 کلومیٹر کے فاصلے میں رہنے والے سرحدی باشندے ہی مستفید ہوسکتے ہیں۔

ایران کا صوبہ سیستان بلوچستان بلوچ اکثریتی علاقہ ہے، جسے کچھ عرصہ قبل ایرانی حکومت نے چار حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن اس پر اطلاعات کے مطابق ابھی تک عمل درآمد شروع نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں تیل بحران کی رپورٹ آنے کے بعد وفاقی حکومت نے ایرانی تیل کی سمگلنگ پر پابندی عائد کی ہے، جس سے بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں غیر قانونی کاروبار سے منسلک ہزاروں افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔

تیل کے بحران پر لاہور ہائی کورٹ میں جمع رپورٹ میں انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بلوچستان کے راستے بڑے پیمانے پر ایرانی تیل کی سمگلنگ ہوتی ہے۔

صحافی قادر بخش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ضلعی انتظامیہ پنجگور نے ایک اعلامیہ جاری کیا ہے، جس میں ایرانی سرحد پر فائرنگ کے واقعے کے بعد کشیدہ صورتحال کے باعث سرحد کو تیل کے کاروبار کے لیے بند کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ایران کے علاقے سے بلوچستان کے سرحدی اضلاع کے لوگ ایرانی پیٹرول کی سمگلنگ کا کاروبار کرتے ہیں، جس میں دونوں اطراف کے مقامی لوگ شراکت دار ہیں، اس بندوبست سے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ سرحدی علاقوں میں روزگار کے ذرائع نہ ہونے کے باعث اکثر لوگوں اسی کاروبار سے منسلک ہیں۔

قادر نے بتایا کہ پنجگور سے روزانہ کی بنیاد پر ایرانی تیل لانے کے لیے ہزاروں گاڑیاں موجود ہوتی تھیں۔ ضلعی انتظامیہ کے حالیہ فیصلے کے بعد بازار ویران پڑا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا