چین کی ہائی سپیڈ ٹرین اور ٹیکنالوجی، جس کے بعد کہیں چَین نہیں پڑتا

میرے والدین چین آئے تو میں نے انہیں بھی اس ٹرین میں سفر کروایا۔۔۔۔ انہوں نے اس سے پہلے صرف پاکستانی ٹرینوں میں سفر کیا تھا، جن کا منزل پر پہنچ جانا بھی ایک معجزہ ہوتا ہے۔ انہیں ہائی سپیڈ ریل میں سفر کر کے بہت مزہ آیا تھا۔

چین کا ہائی سپیڈ ریلوے نیٹ ورک 38 ہزار کلومیٹر طویل ہے (اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کل کیجیے

میں نے زندگی میں پہلی بار ہائی سپیڈ ریل کا سفر چین میں کیا تھا۔ اب یاد نہیں آ رہا کہ ہم کہاں جا رہے تھے۔ چین کے اندر ہی کہیں سفر ہو رہا تھا۔ ہماری ٹرین 302 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ رہی تھی اور ہم سب ٹرین کے اطراف میں لگے ہوئے شیشوں سے باہر دیکھتے ہوئے حیران ہو رہے تھے۔

اندر ایسے لگ رہا تھا جیسے ٹرین حرکت ہی نہ کر رہی ہو جبکہ باہر چیزیں تیزی سے پیچھے کی طرف بھاگ رہی تھیں۔

میرے والدین چین آئے تو میں نے انہیں بھی اس ٹرین میں سفر کروایا۔ ہم سب سے پہلے بیجنگ سے نانجنگ گئے۔ پھر وہاں سے شنگھائی کی سیر کر کے ہائی سپیڈ ریل پر ہی واپس بیجنگ لوٹے تھے۔

انہوں نے اس سے پہلے صرف پاکستانی ٹرینوں میں سفر کیا تھا، جن کا منزل پر پہنچ جانا بھی ایک معجزہ ہوتا ہے۔ انہیں ہائی سپیڈ ریل میں سفر کر کے بہت مزہ آیا تھا۔

شنگھائی اور بیجنگ کا زمینی فاصلہ 1068 کلومیٹر سے زائد ہے۔ ہم نے یہ فاصلہ ہائی سپیڈ ریل میں چار گھنٹے 18 منٹ میں طے کیا تھا۔

دو ماہ پہلے میرے والدین بذریعہ ٹرین لاہور سے کراچی گئے تھے۔ دونوں شہر 1210 کلومیٹر کے فاصلے پر واقعے ہیں۔ انہوں نے اپنی طرف سے تیز رفتار ٹرین لی تھی۔ انہیں اس ٹرین نے کچھ تاخیر کے ساتھ 24 گھنٹوں میں کراچی پہنچایا تھا۔ اب پھر انہیں کراچی جانا ہے۔ انہوں نے بہت سے پیسے خرچ کرکے جہاز کا ٹکٹ لیا ہے۔

اب انہیں میری مشکل سمجھ آ رہی ہے۔ چین میں رہنے کے بعد کہیں اور رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہاں ہم ٹیکنالوجی کا جو طوفان دیکھ کر آتے ہیں، وہ ہمیں دنیا میں کہیں چین سے رہنے نہیں دیتا۔

چین میں دنیا کا سب سے بڑا ہائی سپیڈ ریل کا نظام موجود ہے۔ اس سے پہلے ہائی سپیڈ ریل صرف ان ممالک کے پاس تھی جن کے پاس پیسے بہت زیادہ تھے اور آبادی بہت کم تھی۔ چین کا معاملہ الٹا تھا۔

چین کی آبادی دنیا میں سب سے بڑی تھی اور پیسے اس آبادی کے مقابلے میں بہت کم تھے۔ چین نے اپنا زور اپنی معیشت بہتر بنانے پر لگایا۔ اس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ آج چین کا شمار دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ چین کے پاس دنیا کے بہترین نظام موجود ہیں، جن میں سے ایک اس کا ہائی سپیڈ ریل نیٹ ورک ہے۔

چین کا ہائی سپیڈ ریلوے نیٹ ورک 38 ہزار کلومیٹر طویل ہے۔ چین اس کے مزید پھیلاؤ میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے۔ چین کے بعد سپین کے پاس دنیا کا دوسرا بڑا ہائی سپیڈ ریل کا نظام موجود ہے۔ اس کی کل لمبائی 3218 کلومیٹر ہے، یعنی اس معاملے میں سپین چین کا مقابلہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چین میں ریل کا نظام ہوائی جہازوں کے نظام سے بہتر، سستا اور معیاری ہے۔ چین کے کئی ریلوے سٹیشن ہوائی اڈوں سے بڑھ کر ہیں۔ چینی اپنے قومی شناختی کارڈ یا چہرے کی سکیننگ کی مدد سے سٹیشن پر نصب خود کار مشینوں سے کاغذی ٹکٹ حاصل کر لیتے ہیں۔ اس میں انہیں محض تین سے پانچ سیکنڈ لگتے ہیں۔

چین میں سب سے پہلی ہائی سپیڈ ریلوے لائن بیجنگ اور تیانجن کے درمیان 2008 میں بنی تھی۔ اس ہائی سپیڈ ریل نے دونوں شہروں کے درمیان موجود 120 کلومیٹر کا فاصلہ 30 منٹ میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔

چین نے اس ریلوے لائن کے بعد مڑ کر نہیں دیکھا۔ آج چین میں ہائی سپیڈ ریلوے چین کے دور دراز علاقوں کو آپس میں ملاتی ہے۔ حتیٰ کہ چین کے صوبے سنکیانگ کے دارالحکومت اڑمچی اور صوبہ گانسو کے دارالحکومت لانجو کے درمیان بھی ہائی سپیڈ ریل موجود ہے۔

ابتدا میں چین نے یورپ اور جاپان سے ہائی سپیڈ ریل کا نظام بنانے میں مدد حاصل کی تھی۔ پھر چینی کمپنیوں نے ہی سارا نظام سنبھال لیا اور چین کو ایک ایسا نظام بنا کر دیا جسے آج پوری دنیا رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

چین کے بعض مقامات کے درمیان ہائی سپیڈ ریل جہاز کی نسبت تیز رفتار اور سستی پڑتی ہے۔ جہاز کے لیے ایئرپورٹ پر کم از کم دو گھنٹے پہلے پہنچنا پڑتا ہے۔ اس وقت کو شامل کریں تو ریل کے سفر میں جہاز کے مقابلے میں کم وقت صرف ہوتا ہے۔

یہاں پروازوں کے شیڈول میں تاخیر بھی معمول کی بات ہے۔ ہائی سپیڈ ریل کے پھیلاؤ کے ساتھ چینی اندرونِ ملک سفر کے لیے ٹرینوں کا رخ کر رہے ہیں۔ اس سے چینی ایئرلائنز کو کافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

چین کی ہائی سپیڈ ریلوے صاف ستھری اور ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ مسافر سفر کے دوران اپنے موبائل فون اور لیپ ٹاپ چارج کر سکتے ہیں اور تیز رفتار فور جی انٹرنیٹ استعمال کر سکتے ہیں۔

چین اپنی ای کامرس انڈسٹری اور علی پے نامی ایپ کی ایجاد کے بعد اپنے ہائی سپیڈ ریل نیٹ ورک کو اپنی ایسی تیسری بڑی ایجاد سمجھتا ہے، جس نے چین کو ترقی کی اس راہ پر ڈالا ہے جس پر جانے کا خواب ہم سمیت دنیا کا ہر ملک دیکھ رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ