ایک ایرانی سرکاری ٹی وی چینل کو رات کے نیوز پروگرام کے دوران مختصر وقت کے لیے ہیک کرنے کے بعد سپریم لیڈر علی خامنہ ای کو ایک پیغام کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ یہ سب تب ہوا جب ایران میں جاری حکومت کے خلاف مظاہروں کو چار ہفتے کا عرصہ ہوگیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نیوز نیٹ ورک (IRINN) کی طرف سے نیوز کاسٹ، جو اسلامی جمہوریہ ایران براڈکاسٹنگ (IRIB) کارپوریشن کے تحت آتا ہے، کو تھوڑی دیر کے لیے ’عدالتِ علی‘ نامی گروپ نے ہیک کیا، اس نام کا مطلب ہے ’علی کا انصاف۔‘
ہفتے کو نشریاتی ادارہ بوشہر نامی شہر میں ایک اجلاس میں شریک آیت اللہ خامنہ ای پر ایک سیگمنٹ نشر کر رہا تھا جب اس دوران 15 سیکنڈ کی ایک فوٹیج دکھائی دی جس میں ایک کالے بیک گراؤنڈ میں ایک ماسک دکھایا گیا اور پھر خامنہ ای کی ایک تصویر نمودار ہوئی جو آگ کے شعلوں میں گھری ہوئی تھی اور ان کے ماتھے پر ایک لال رنگ کا ٹارگٹ تھا۔
فوٹیج میں مہسا امینی، نیکا شاہکرامی، ہادیس نجفی اور سرینا اسماعیل زادہ کی تصاویر بھی تھیں – یہ سب ہی ایران میں ایک ماہ کے دوران انتقال کر چکی ہیں۔
فوٹیج کے کیپشن میں ’ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ اور جاگ اٹھو‘ اور آیت اللہ کے حوالے سے ’ہمارے جوانوں کا خون تمہارے پنجوں سے ٹپک رہا ہے‘ لکھا تھا۔
ایک گانا جس کے الفاظ ہیں: ’عورت۔ زندگی۔ آزادی‘ اور جو کہ مظاہرین کا ایک عام نعرہ ہے پس منظر میں بج رہا تھا۔
As darkness sets in, protests over the death of #MahsaAmini continue in Iran.
— Shayan Sardarizadeh (@Shayan86) October 8, 2022
This is Nazi Abad, a working class, traditional district of south Tehran. A large crowd of protesters chants "death to the dictator" on the 23rd night of unrest.
#مهسا_امینی pic.twitter.com/5Y6CHYfFDD
ایران میں 17 ستمبر کو 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی تدفین کے بعد حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے جو ایران کی ’خوفناک اخلاقی پولیس‘ کی حراست میں انتقال کر گئی تھی۔
انہیں خواتین کے لیے ملک کے سخت اسلامی لباس کے ضابطوں کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔
ان کی موت کے بعد سے ہزاروں خواتین احتجاج کے طور پر ملک بھر میں سڑکوں پر نکل آئیں اور ایک شدید کریک ڈاؤن کے خلاف مزاحمت کی، جس پر انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ تقریباً 150 افراد ہلاک اور سینکڑوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
جب حکومت مخالف مظاہرے چوتھے ہفتے میں داخل ہوئے تو کرد اکثریتی شہر سنندج میں مبینہ طور پر دو افراد مارے گئے۔ مبینہ طور پر ایک شخص کو پولیس نے کار چلاتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا، جب کہ دوسرا مظاہرہ کرنے والا شخص اس وقت مارا گیا جب سکیورٹی فورسز نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے گولیاں چلائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیم سرکاری فارس نیوز ایجنسی کے مطابق، پولیس افسران نے مظاہرین کے خلاف لائیو راؤنڈ استعمال کرنے سے انکار کیا۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو بھی تہران کی صرف طالبات پر مشتمل الزہرہ یونیورسٹی کی طالبات سے ملاقات کے دوران شدید احتجاج کا سامنا کرنا پڑا، جہاں راہداریوں سے ’دفع ہو جاؤ‘ کے نعرے گونجنے لگے۔
تہران کی متعدد یونیورسٹیوں میں مظاہرے جاری رہے اور اب یہ بازاروں تک بھی پھیل گئے، مظاہروں کی حمایت میں کئی دکانیں بند کر دی گئیں۔
جمعے کو ملک کی فرانزک میڈیسن آرگنائزیشن نے کہا کہ امینی کی موت سر اور اعضا پر چوٹ لگنے کے نتیجے میں نہیں ہوئی بلکہ اس کی موت دماغی ہائپوکسیا کی وجہ سے متعدد اعضا کی ناکامی سے ہوئی۔
کورونر کی رپورٹ میں کہا گیا کہ امینی نے ’اندرونی بیماریوں‘ کی وجہ سے حراست میں رہتے ہوئے ’اچانک ہوش کھو دیا اور بعد میں گر گئیں،‘ اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے آٹھ سال کی عمر میں دماغ کے ایک ٹیومر کی سرجری کے بعد اپنے تھائرائڈ اور ایڈرینل غدود میں خرابی کی دوا لی تھی۔
انہوں نے مزید کہا: ’پہلے مشکل لمحوں میں غیر موثر کارڈیو اور سانس کی بحالی کی وجہ سے، انہیں شدید ہائپوکسیا کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے نتیجے میں دماغ کو نقصان پہنچا۔‘
امینی کی موت کی رپورٹ اس وقت جاری کی گئی جب ایرانی حکام نے ان دعوؤں کی تردید کی کہ 16 سالہ سرینہ اسماعیل زادہ حالیہ ہفتوں میں ہونے والے احتجاج کے دوران سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں لاٹھیوں کی وجہ سے موت کے منہ میں گئیں۔ اس کے بجائے اس بات پر اصرار کیا گیا کہ انہوں نے خود کو پانچ منزلہ عمارت کی چھت سے گرا لیا تھا۔
© The Independent