ایران: مہسا کی موت پر احتجاج میں شریک 16 سالہ لڑکی کی موت پر تشویش

نیکا شاکرمی 20 ستمبر کو تہران میں ہونے والے ایک مظاہرے میں شرکت کے بعد لاپتہ ہو گئی تھیں اور دس دن بعد گھر والوں کو بتایا گیا کہ وہ مردہ پائی گئی ہیں۔

مہسا امینی کی موت پر ایران میں جاری حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہونے والی ایک 16 سالہ لڑکی نیکا شاکرمی کی موت کی وجوہات پر ملک بھر میں تشویش پائی جاتی ہے جبکہ ایرانی عدلیہ ان الزامات کو مسترد کر چکی ہے کہ نیکا کی ہلاکت ایرانی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہوئی۔

نیکا شاکرمی کی خالہ عطاش شاکرمی نے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ مہسا امینی کی موت کے خلاف 20 ستمبر کو تہران میں ہونے والے ایک مظاہرے میں شرکت کے بعد نیکا لاپتہ ہو گئی تھیں اور دس دن بعد گھر والوں کو بتایا گیا کہ وہ مردہ پائی گئی ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایران سے باہر موجود فارسی میڈیا کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ نیکا شاکرمی کے غمزدہ اہل خانہ کو یہ اجازت نہیں دی گئی کہ وہ لاش کو اپنے آبائی شہر میں دفن کر سکیں  جبکہ نیکا شاکرمی کے دو قریبی رشتہ داروں کو بھی مبینہ طور پر گرفتار کرلیا گیا ہے۔

16 ستمبر کو ’ناکافی حجاب‘ پہننے کے معاملے پر ایرانی سکیورٹی فورسز کی زیرحراست 22 سالہ مہسا امینی کی موت کے بعد ایران بھر میں شدید احتجاج کے ساتھ دیگر ممالک میں یکجہتی کے مظاہرے شروع ہوئے تھے جو اب تک جاری ہیں۔ مہسا کو تہران کی بدنام زمانہ ’اخلاقیات پولیس‘ نے گرفتار کیا تھا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مظاہرین کے خلاف ایرانی سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ذرائع ابلاغ  بشمول بی بی سی فارسی اور ایران وائر کے مطابق نیکا شاکرمی کے اہل خانہ کو ایک مردہ خانے میں اپنی بیٹی کی لاش دیکھنے کی اجازت دی گئی لیکن انہیں اپنے آبائی قصبے خرم آباد میں لاش دفن کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

اس کے بجائے ایرانی حکام نے تین اکتوبر کو خرم آباد سے کئی سو کلومیٹر دور ایک گاؤں میں انہیں خفیہ طور پر دفن کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیو یارک میں قائم سینٹر فار ہیومن رائٹس ان ایران سمیت سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نیکا شاکرمی کے اہل خانہ خرم آباد میں ان کی یاد میں ایک مظاہرے میں شریک ہیں اور ان کی پریشان حال والدہ کہتی ہیں کہ ’نیکا، میری بیٹی، آج تمہاری سالگرہ تھی!‘

جس تصویر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ویسیان گاؤں میں نیکا شاکرمی کی تدفین والی جگہ ہے، میں ایک کچی قبر نظر آ رہی ہے، جس کے سرہانے پتھر کے کتبے پر نیکا شاکرمی لکھا ہوا ہے۔

نیکا کی خالہ عطاش شاکرمی کو ان کے چچا سمیت گرفتار کر لیا گیا ہے۔ عطاش شاکرمی نے آخری بار دو اکتوبر کو ٹویٹ کی تھی، جس کے بعد سے کوئی ٹویٹ نہیں کی گئی۔

اطلاعات ہیں کہ نیکا شاکرمی کو تہران سے باہر کہریزک جیل میں رکھا گیا تھا لیکن ایرانی حکام کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔ جب اہل خانہ نے لاش دیکھی تو اس کی ناک ٹوٹی ہوئی تھی اور سر جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا۔

بی بی سی فارسی نے پیر کو خبر دی تھی کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ نیکا شاکرمی ’کوئی سخت چیز‘ لگنے سے متعدد زخموں کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہیں۔

ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق نیکا شاکرمی کی موت کی تحقیقات بدھ کو شروع کی گئی ہیں اور اس سلسلے میں آٹھ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

نیکا شاکرمی اور مہسا امینی کی موت کے خلاف مظاہروں میں تعلق؟

تاہم ایران کی عدلیہ نے بدھ کو نیکا شاکرمی کی موت اور مہسا امینی کی موت پر ہونے والے مظاہروں کے درمیان کسی بھی قسم کے تعلق کو مسترد کر دیا۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے تہران کی عدلیہ کے اہلکار محمد شہریاری کے حوالے سے بتایا: ’ایک پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک سے زیادہ فریکچر، ناف سے نچلا حصہ، سر، اوپری اور نچلے اعضا، بازوؤں اور ٹانگوں کی ہڈیاں ٹوٹنے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ نیکا شاکرمی کو اونچائی سے پھینکا گیا تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’(ان کے جسم پر) گولیوں کے کوئی نشان نہیں ملے اور شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ موت انہیں گرائے جانے کی وجہ سے ہوئی تھی، اس واقعے کا حالیہ ہنگامہ آرائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

تہران کے فوجداری استغاثہ کے سربراہ کے مطابق نیکا شاکرمی کی لاش 30 ستمبر کی صبح سات بجے ایک عمارت کے مکینوں کو ملی۔ یہ عمارت ضلع الخبیل میں لبافی سٹریٹ، امیر اکرم کراس روڈ پر واقع ہے۔

 پاسداران انقلاب اسلامی کے قریبی خبر رساں اداروں کے دعوے کے مطابق پڑوسیوں نے بتایا کہ انہوں نے صبح تین بجے کوئی چیز زمین سے ٹکرانے کی آواز سنی، لیکن انہیں اس پر شبہ نہیں ہوا۔

اس سے قبل تسنیم نیوز ایجنسی نے بتایا تھا کہ جائے وقوع کے قریب ایک عمارت میں کام کرنے والے آٹھ افراد کو نیکا شاکرمی کی موت کے تناظر میں گرفتار کیا گیا ہے۔

ناروے میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ایران ہیومن رائٹس (آئی ایچ آر) کا کہنا ہے کہ مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران ایرانی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے 90 سے زائد افراد میں کم از کم سات خواتین بھی شامل ہیں۔

مظاہرین کے خلاف ایرانی حکومت کے کریک ڈاؤن کی نوعیت

امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے ایران میں جاری مظاہروں کے حوالے سے آزادانہ تحقیقات کی ہیں، جن میں حکومت کی جانب سے مظاہروں کو کچلنے کے لیے استعمال کیے جانے والے تین اہم ہتھکنڈوں پر توجہ مرکوز کی گئی جن میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے براہ راست گولہ بارود کا بظاہر استعمال، ٹارگٹڈ گرفتاریاں اور انٹرنیٹ سروس کی بندش شامل ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ نے سات شہروں کی ویڈیوز کو جیولوکیٹ کیا ہے، جس میں سکیورٹی فورسز کو مظاہرین پر فائرنگ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ آرمامنٹ ریسرچ سروسز کے ڈائریکٹر این آر جینزن جونز کے مطابق: ’اگرچہ صرف ویڈیوز سے استعمال ہونے والے راؤنڈز کی قسم کی تصدیق کرنا ناممکن تھا، تاہم اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ (سکیورٹی فورسز) حالیہ دنوں اور ہفتوں کے واقعات کے دوران مظاہرین کے خلاف براہ راست گولیاں استعمال کر رہی تھیں۔‘

نگرانی کرنے والے حکومت مخالف ایک گروپ نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ احتجاج کے آغاز سے ہی سکیورٹی فورسز مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کر رہی ہیں۔

دفاعی انٹیلی جنس فراہم کرنے والے ادارے جینز کے تجزیہ کاروں نے بھی ایران سے سامنے آنے والی ویڈیوز کا جائزہ لیا اور اس بات کا تعین کیا کہ کم از کم دو ویڈیوز میں ممکنہ طور پر براہ راست گولہ بارود کا استعمال دکھایا گیا ہے۔

 تجزیہ کاروں کے مطابق 20 ستمبر کو رشت اور 23 ستمبر کو تہران میں آن لائن پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سکیورٹی افسران ہجوم پر فائرنگ کر رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا