صدر پاکسستان ڈاکٹر عارف علوی نے گذشتہ روز اپنے ایک انٹرویو میں ’سائفر‘ سے متعلق جواب کو ’مکمل طور سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش‘ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
صدر پاکستان کے ٹوئٹر ہینڈل پر سلسلہ وار ٹوئٹس میں ’آج نیوز‘ کی اینکر عاصمہ شیرازی کو دیے جانے والے ایک انٹرویو کا حوالہ دیا گیا ہے۔
ٹویٹس میں کہا گیا کہ ’صدر مملکت نے واضح طور پر کہا تھا کہ انہیں سازش کے بارے میں شبہ ہے، تاہم اس کا حتمی فیصلہ مکمل تحقیقات کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔‘
ایک ٹویٹ کے مطابق: ’انہوں (صدر عارف علوی) نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھنے سے لے کر اب تک ان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور اس خط میں انہوں نے سپریم کورٹ سے معاملے کی مکمل انکوائری کرنے کی درخواست کی تھی کیوں کہ انہیں پختہ یقین ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہییں۔‘
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے میڈیا میں شائع/نشر ہونے والی ان خبروں کا سخت نوٹس لیا ہے جن میں پیر کو "آج نیوز" کی اینکر عاصمہ شیرازی کے ساتھ انٹرویو کے دوران صدر مملکت کے "سائفر " کے حوالے سے بیان کو مکمل طور سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ pic.twitter.com/NmXhSHzDKw
— The President of Pakistan (@PresOfPakistan) October 11, 2022
ٹویٹس میں وضاحت کی گئی ہے کہ صدر مملکت نے اس معاملے کو سپریم کورٹ میں اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ انہیں سازش کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا بلکہ اس لیے کہ یہ معاملہ ملک کے سابق وزیراعظم کی جانب سے اٹھایا گیا تھا لہٰذا تمام دستیاب واقعاتی شواہد سمیت پورے معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ضروری ہیں۔‘
وضاحتی ٹویٹس میں کہا گیا کہ ہم اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرسکتے کہ سائفر کے قومی سطح پراثرات مرتب ہوئے اور ان کے باعث سیاسی ہلچل پیدا ہوئی۔
’صدر مملکت پارلیمنٹ میں اور اس کے علاوہ بھی متعدد مرتبہ سیاق و سباق سے ہٹ کر تصویر کشی کے مضمرات کے بارے میں بات کر چکے ہیں۔ سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیے گئے بیانات پہلے سے ہی تقسیم شدہ ماحول میں مزید خلیج پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔‘
صدر مملکت پارلیمنٹ میں اور اس کے علاوہ بھی متعدد مرتبہ 'سیاق و سباق سے ہٹ کر' تصویر کشی کے مضمرات کے بارے میں بات کر چکے ہیں اور سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیے گئے بیانات پہلے سے ہی تقسیم شدہ ماحول میں مزید خلیج پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
— The President of Pakistan (@PresOfPakistan) October 11, 2022
پیر کو پاکستان کے نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے پروگرام ’فیصلہ آپ کا‘ میں انٹرویو کے دوران صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ’سائفر‘ کے معاملے پر کہا تھا کہ ’میں اس بات پر قائل نہیں ہوں کہ سازش ہوئی ہے لیکن خدشات ہیں تو اس کی تحقیقات ہونی چاہییں۔‘
صدر پاکستان عارف علوی سے سوال کیا گیا تھا کہ ’کیا سائفر کے ایشو پر نقصان ہوا؟‘ اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس بات پرقائل ہوں کہ اس پر تحقیقات ہونی چاہییں۔ میں اس بات پر قائل نہیں کہ سازش ہوئی، مگر میرے شبہات ہیں کہ تحقیق ہو۔ میں نے یہ بھی کہا کہ سموکنگ گن (ثبوت) نہیں ملے گی آپ کو۔ ان چیزوں میں نہیں ملتی۔‘
اس حوالے سے سوال پر صدر نے کہا تھا کہ انہوں نے سفارتی سائفر تحقیقات کے لیے چیف جسٹس کو بھیجا تھا۔
انٹرویو کے دوران صدر عارف علوی سے سوال کیا گیا کہ کیا فوج کو نیوٹرل ہونا چاہیے؟ جس پر صدر مملکت نے کہا: ’فوج کا آئینی کردار ہونا چاہیے۔ میں لفظ نیوٹرل پر بھی بیان نہیں دینا چاہوں گا۔‘
ایک سوال کے جواب میں صدر عارف علوی نے کہا کہ ’اسمبلیوں سے نکلنے کا فیصلہ عمران خان کا اپنا تھا، مجھ سے مشورہ ہوتا تو میں مختلف مشورہ بھی دے سکتا تھا۔‘
صدر مملکت، جن کا تعلق سابق حکمراں جماعت تحریک انصاف سے ہے، نے اس انٹرویو میں پارٹی لائن سے قدرے ہٹ کر بات کی۔ اس کے برعکس تحریک انصاف پہلے دن سے سازش کے بیانیے کو فروغ دے رہی تھی۔
صدر علوی حالیہ دنوں میں امریکہ اور پاکستان میں تعلقات پر زور دے چکے ہیں، جو سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے امریکہ پر سازش کے الزامات کے بعد کشیدہ ہوئے تھے۔
صدر علوی نے اینکر عاصمہ شیرازی کو انٹرویو میں لیاقت علی خان کے قتل، بھٹو کی اقتدار سے معزولی اور ضیا الحق کے طیارے کی تباہی سمیت کئی واقعات کا حوالہ دیا اور کہا کہ ’ان معاملات میں کسی کو کچھ نہیں ملا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے آرمی چیف کے تقرر کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے اس تعیناتی پر وسیع تر مشاورت کا مشورہ دیا ہے۔
نئے آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے انہوں نے کہا: ’میں سمجھتا ہوں کہ آرمی چیف کے نام پر اتفاق رائے کے ذریعے وسیع تر مشاورت ہونی چاہیے۔ بطور صدر میرے پاس آرمی چیف کی تقرری کی سمری مشاورت کے بعد آئے تو زیادہ اچھا ہوگا۔‘
میزبان کے اس سوال پر کہ کیا عمران خان سے بھی مشاورت ہونی چاہیے؟ صدر مملکت کا کہنا تھا: ’میں سمجھتا ہوں کہ مشاورت وسیع تر ہو تاکہ اتفاق رائے ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ تاریخ میں ایسی مشاورت ہوتی رہی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ سابق حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر مشاورت کی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ موجودہ آرمی چیف جنرل باجوہ کو توسیع دیتے وقت بھی اپوزیشن سے مشاورت ہوئی تھی جس کے بعد پارلیمنٹ میں بل منظور کیا گیا۔ ’مشاورت ہوئی تھی جب ہی تو قانون بنا، شاید اسمبلی کے قبل مشاورت ہوئی ہو۔‘