قومی اسمبلی میں آج صدر مملکت کے خلاف غیرآئینی احکامات پر قرارداد مذمت منظور کر لی گئی۔
قرارداد میں کہا گیا کہ ’صدر مملکت نے گورنر پنجاب کی تقرری کے معاملے میں غیر آئینی احکامات جاری کیے۔ صدر مملکت نے ایوان صدر کے دفتر کا غیر آئینی استعمال کیا۔ یہ ایوان صدر مملکت کے غیر آئینی احکامات کی مذمت کرتا ہے۔‘
قومی اسمبلی کے اجلاس میں رکن اسمبلی محسن داوڑ نے صدر مملکت کے خلاف قراردار پیش کی۔ محسن داوڑ نے کہا کہ ’صدر مملکت نے گورنر کو ہٹانے کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 64کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس قرارداد پر تمام جماعتوں کے دستخط ہیں اسے منظور کیا جائے۔‘
صدر کے خلاف مذمتی قرارداد کا متن
قرار داد میں کہا گیا کہ ایوان سمجھتا ہے کہ آئین کے مطابق ہر شہری آئین کا تابع ہے۔ صدر پاکستان کے حلف کے مطابق اپنے عہدے کو ذاتی مفاد کو سرکاری مفاد پر ترجیح نہیں دیں گے۔ صدر پاکستان آئین کے تحفظ اور دفاع کے پابند ہیں۔ صدر کی طرف سے بیان کردہ غیر آئینی موقف پر ایوان کو شدید اعتراض ہے۔ صدر کا آئین سے انحراف عہدے اور پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے۔ ایوان صدر پر زور دیتا ہے کہ وہ غیر جانبدار رہ کر آئین کے مطابق زمہ داریاں ادا کریں۔
قانون اور آئین اس حوالے سے کیا کہتا ہے؟
اس معاملے پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’آئین پارلیمانی ہے اس لیے پارلیمان کے قائد اور کابینہ کی مشاورت سے صدر مملکت کو چلنا ہوتا ہے۔ آج یہ ایوان طے کرلے کہ کیا اسے پارلیمانی طورپر چلنا چاہتے ہیں یا صدارتی نظام لانا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ آئین بنانے والوں کو معلوم نہیں تھا کہ ’بڑے عہدوں پر اتنے چھوٹے لوگ آگئے ہیں۔ سابقہ وزیر اعظم نے پنجاب میں ایک گورنر کو دس منٹ میں نکالا اور اگلا لگا بھی دیا۔ اس وقت اگر گورنر لگانا اور ہٹانا درست تھا تو آئینی طورپر کیوں درست نہیں ہے۔‘
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے ایوان میں آ کر صدر کے خلاف قرارداد مذمت منظور کرنے کے معاملے پر ایوان کو آگاہی دی۔ انہوں نے کہا کہ ’صدر کی جانب سے گورنر کو لگانے اور ہٹانے کا اختیار کی تشریح سپریم کورٹ نے کردی ہے، واضح کہا ہے کہ جو تقرر کرتا ہے وہ ہی ہٹا سکتا ہے۔ آئین اور سپریم کورٹ کی ججمنٹ میں واضح ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے قانونی نقطے کی وضاحت کے لیے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر سے رابطہ کیا اور اُن سے پوچھا کہ گورنر کی تقرری کون کرتا ہے اور کون ہٹا سکتا ہے کیا صدر مسترد کر سکتے ہیں؟ عرفان قادر نے کہا کہ ’اس حوالے سے آرٹیکل 101 گورنر کی تقرری کے حوالے سے طریقہ کار بتاتا ہے جب کہ آرٹیکل 48(1) یہ کہتا ہے کہ صدر نے وزیراعظم اور کابینہ کی ایڈوائس پر کام کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 101 کہتا ہے کہ گورنر کی تقرری وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر کریں گے۔ اب یہ واضح ہے جب آرٹیکل 101 اور 48(1) کو ملا کر پڑھیں تو یہ وزیراعظم کی صوابدید ہے کہ وہ گورنر کی تقرری کریں اور صدر اُن کی ایڈوائس پر اُس کی منظوری دیں۔‘
اراکین اسمبلی کی رائے:
جی ڈی اے نے صدر مملکت کے خلاف قرارداد منظور کرنے کی مخالفت کر دی۔ جی ڈی اے کے پارلیمانی لیڈر غوث بخش مہر نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 103کی شق تین میں واضح لکھا ہے کہ صدر کی خوشنودی تک گورنر رہے گا۔ گورنر کو ہٹانے کے بارے میں کوئی واضح طریقہ کار آئین میں درج نہیں۔ آئین میں گورنر کے کام جاری رکھنے کو صدر کی خوشنودی تک کام جاری رکھنے کا کہا گیا ہے۔
جب کہ دوسری جانب سابق سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے اسمبلی میں رائے دیتے ہوئے کہا کہ صدر کے آئینی صوابدیدی اختیار اور سپیکر کی رولنگ کو مذاق نہ بنائیں آئین صدر کو آرٹیکل اڑتالیس اور ایک سو تین کے تحت اختیار دیتا ہے۔ صدر بھی پارلیمان کا حصہ ہے اسے بے توقیر نہ کریں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ ’یہاں جس طرح ہارس ٹریڈنگ اور لوٹا کریسی کو جو فروغ دیا گیا کیا وہ آئینی تھا؟ کیا لوٹا کریسی کو فروغ دے کر آئین کی خدمت کی گئی۔ صدر، عدلیہ ایوان اور فوج کی بطور ادارہ کچھ تو عزت رہنے دیں۔‘