’آپ کے دس روپے سے بھی میرا ٹور ممکن ہوسکتا ہے‘: پاکستانی کک باکسر

کراچی میں ایک چائے کے ہوٹل پر کام کرنے والے کک باکسر آغا کلیم روس میں ہونے والی فائٹ میں شرکت کے لیے سپانسر کی تلاش میں ہیں، تاکہ ان کے ہوٹل کے اخراجات پورے ہوسکیں۔

کراچی کے پسماندہ علاقہ بلدیہ ٹاؤن میں مقیم کک باکسر آغا کلیم اپنے اس شوق کی خاطر ایک چائے کے ہوٹل پر کام کر رہے ہیں۔

 آغا کلیم کا تعلق کوئٹہ کے علاقے نیو کلی کربلا شاہی کوٹ سے ہے مگر ذریعہ معاش اور اپنے شوق کی خاطر وہ کراچی میں مقیم ہیں اور ایک چائے کے ہوٹل پر اپنے والد اور دیگر افراد کے ہمراہ 12 گھنٹے کام کرتے ہیں۔

ہوٹل پر کام کرنے کے بعد وہ کلب جاکر پریکٹس کرتے ہیں تاکہ اپنا خواب پورا کرسکیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں آغا کلیم نے بتایا کہ وہ آج سے 20 سال قبل کام کے سلسلے میں اپنے آباؤ اجداد کے ہمراہ کراچی آئے تھے۔ ’ان کے ساتھ کام کرتے کرتے میں نے پڑھائی شروع کی، میٹرک تک پہنچا مگر بدقسمتی سے آگے تعلیم مکمل نہیں کرسکا۔‘

’باکسنگ کلب جانے کے لیے فیس نہیں تھی‘

باکسنگ کی طرف راغب ہونے کی کہانی آغا کلیم کچھ یوں بتاتے ہیں: ’ایک دن ایک دوست مجھے اپنے ساتھ کلب لے گئے، وہاں کا ماحول دیکھا تومجھے بہت پسند آیا۔ میں چاہتا تھا کہ میں اس کلب میں جاؤں اور ایک اچھا فائٹر بنوں، لیکن میرے پاس اتنی استطاعت نہیں تھی کہ میں انہیں فیس دیتا۔

انہوں نے بتایا: ’استاد نے مجھے کہا کہ آپ کیا کرتے ہو؟ میں نے کہا کہ میں ہوٹل میں کام کرتا ہوں۔ استاد نے پوچھا فیس؟ میں نے کہا نہیں دے سکوں گا۔‘

بقول آغا کلیم: ’استاد نے کہا کہ آپ میں ٹیلنٹ ہے، آپ صرف ہمارے کلب آجائیں۔ تین دن بعد استاد نے کہا کہ ایک فائٹ ہے کھیلو گے؟ مجھے بہت خوشی ہوئی، میں نے کہا کہ اگر مجھے کچھ نہیں بھی آتا ہے پھر بھی فائٹ کروں گا۔

’میں نے جب پہلی فائٹ لڑی تو میں ہار گیا۔ استاد نے مجھے بہت موٹیویٹ کیا، کہا کہ آپ کے تین دن ہوئے تھے آپ نے بڑی اچھی فائٹ لڑی، اس کے بعد سیزن دوم سندھ، بلوچستان کا آیا اور الحمد اللہ میں نے سندھ ٹو میں اس لڑکے کو دوبارہ ہرایا۔‘

’جب ہر کوئی کرسکتا ہے تو میں بھی کرسکتا ہوں‘

آغا کلیم کہتے ہیں کہ 2021 میں نیشنل فائٹ آئی تو وہ اس وقت تیار بھی نہیں تھے لیکن ہمت اور جنون تھا کہ کھیلنا ہے تو پاکستان کے لیے کھیلنا ہے اور نام بنانا ہے، کیونکہ ’جب ہر کوئی کرسکتا ہے تو میں بھی کرسکتا ہوں۔‘

انہوں نے بتایا: ’الحمد اللہ مجھے خود پر بھروسہ تھا اور امید تھی۔ میں چاہتا ہوں کہ جو عوام مجھے پڑھ اور دیکھ رہے ہیں وہ مجھے سپورٹ کریں تاکہ میں پاکستان کا نام روشن کر سکوں۔ مجھے پیسوں کی لالچ نہیں، مجھے آپ لوگوں کی سپورٹ چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آغا کلیم آنے والی عالمی فائٹس کے لیے کوالیفائی کرنا اور پاکستان کا نام روشن کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’اس سے قبل دبئی میں عالمی فائٹ کے لیے میرا نام آیا تھا مگر وہ فائٹ کینسل ہو گئی کیونکہ میرے پاس سپانسر نہیں تھا۔‘

اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ان کے سپانسر نے ان سے روس کے ٹکٹ کا وعدہ کیا ہے۔ ’مجھ میں حوصلہ آگیا جب سپانسر نے کہا کہ ٹکٹ میں دوں گا، مجھے بڑا اچھا محسوس ہوا۔

’اب موقع ہے کہ میں نے کر کے دکھانا ہے۔ میرے ٹکٹ کا بندوبست ہوچکا ہے، میں چاہتا ہوں ہوٹل کے اخراجات کے لیے مجھے کوئی سپانسر مل جائے تاکہ میری ہوٹلنگ ہو جائے کیونکہ پچھلے سال میرا ترکی کا دورہ تھا، لیکن اس میں ہوٹل کا مسئلہ تھا۔ وہ سات دن کے ڈیڑھ لاکھ روپے مانگ رہے تھے اور میرے پاس پیسے نہیں تھے تو وہ کینسل ہو گیا تھا۔‘

ساتھ ہی انہوں نے اپنے پاکستانی بہن بھائی سے درخواست کی کہ ’اگر آپ لوگوں کے دس روپے بھی مجھے پہنچتے ہیں تو میرا آنے والا ٹور ممکن ہو سکتا ہے۔‘

آغا کلیم نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان کو نوجوان نسل کو کھیلوں کی طرف راغب کرنے کے لیے بہتر اقدامات کرنے ہوں گے۔ ’میں حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ سپورٹس پر توجہ دے تاکہ آنے والی نسل اچھے سے اچھا نتیجہ دے سکے اور پاکستان کا نام روشن کرسکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل