ضمنی انتخابات یا تماشا؟

اہم بات یہ ہے کہ جب ملک سیلاب میں ڈوب چکا، دنیا ہمارے لیے اظہار ہمدردی کے طور پر فنڈز کا بندوبست کر رہی ہے تو ہم ایسے لا یعنی ضمنی انتخابات کے چولہے میں کروڑوں روپے برباد کرنے جا رہے ہیں۔ ہے کوئی ہم سا؟

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ضمنی انتخابات سے قبل مختلف شہروں میں انتخابی مہم کے تحت جلسے کر چکے ہیں اور اسی سلسلے میں انہوں نے 14 اکتوبر کو کراچی میں جلسے سے خطاب کیا (اے ایف پی)

 یہ تحریر کالم نگار کی آواز میں سننے کے لیے یہاں کلک کریں:

ضمنی انتخابات کا میدان سج چکا ہے اور سیلاب زدہ ملک کے ایک بے بس شہری کے طور پر، میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ یہ انتخابات ہیں یا تماشا؟ 

قومی اسمبلی کے آٹھ میں سے سات حلقوں پر عمران خان خود امیدوار ہیں۔ فرض کریں وہ ان تمام نشستوں سے جیت جاتے ہیں، پھر کیا ہو گا؟ مضحکہ خیز حقیقت یہ ہے کہ انہیں جیتی ہوئی تمام نشستیں خالی کرنا ہوں گی کیونکہ وہ پہلے ہی قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور ابھی ان کا استعفیٰ منظور نہیں ہوا اور قانون کے مطابق ایک آدمی ایک نشست رکھ سکتا ہے جو ان کے پاس پہلے ہی سے موجود ہے۔

ان خالی کردہ نشستوں پر پھر سے انتخابات ہوں گے۔ کسے معلوم ایک بار پھر عمران خان ہی تمام حلقوں سے امیدوار بن جائیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس نظام میں اتنی سکت ہے کہ وہ اس کھیل کو روک سکے؟ اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو پھر اس شوقیہ انتخابی عمل کے اخراجات وہ غریب قوم کیوں برداشت کرے، جس کے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اب تو زہر کھانے کو بھی پیسے نہیں ہیں؟

آٹھویں حلقے کی کہانی اس سے بھی زیادہ پر لطف ہے۔ شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا اور پنجاب اسمبلی کے رکن بن گئے۔ ان کی خالی کردہ نشست پر اب ان کی بہن قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس خالصتاً خاندانی اہتمام کے نتیجے میں ہونے والے ضمنی انتخابات کا خرچ غریب قوم کیوں برداشت کرے؟

عمران خان اس وقت بھی رکن قومی اسمبلی ہیں (ان کا استعفیٰ ابھی قبول نہیں ہوا)۔ کیا الیکشن کمیشن ہماری رہنمائی فرما سکتا ہے کہ ایک شخص قومی اسمبلی کا ممبر ہوتے ہوئے، قومی اسمبلی کا الیکشن کیسے لڑ سکتا ہے اور انتخابی ضابطے اور متعلقہ ادارے اسے اس کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں؟

کیا اس ملک، اس کے آئین، اس کے انتخاب اور اس کے نظام کے ساتھ اس سے زیادہ سنگین مذاق بھی کوئی ہو سکتا ہے؟

ضمنی انتخاب معمولی مشق نہیں۔ ایک حلقے کے ضمنی انتخاب میں کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ نظام زندگی معطل ہو جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین دفاتر کا کام چھوڑ کر انتخابی ڈیوٹی دیتے ہیں۔

کسی ناگزیر صورت حال میں تو ضمنی انتخاب ہو تو معاشرے کو اس مشق سے گزارنے میں کوئی حرج نہیں لیکن محض ایک سیاسی حربے کے طور پر یا اپنی مقبولیت دکھانے کے لیے عوام کو بار بار ایک فضول مشق سے گزارنا اور اس مشق پر کروڑوں روپے ضائع کرنا کہاں کی حکمت عملی ہے؟ ایسے اخراجات قومی خزانے کی بجائے متعلقہ امیدوار یا اس کی جماعت سے کیوں نہیں لیے جاتے؟

یہ لوٹ سیل پہلے انڈیا میں بھی ہوا کرتی تھی۔ ہر امیدوار کو اس بات کی اجازت تھی کہ جتنے حلقوں سے چاہے کھڑا ہو جائے، لیکن وہاں ایک وقت آیا کہ الیکشن کمیشن نے اس پر سوال اٹھایا کہ اگر ایک شخص ایک سے زیادہ حلقوں میں الیکشن لڑتا ہے اور جیت جاتا ہے تو ایک نشست کے علاوہ باقی سب سے تو وہ مستعفی ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب اس کی چھوڑی گئی نشستوں پر جو ضمنی انتخاب ہو گا اس کے اخراجات قومی خزانے سے کیوں ادا کیے جائیں؟ یعنی صرف ایک شخص کی خاطر پورے حلقے کے عوام کو مشقت میں کیوں ڈالا جائے، ہزاروں لوگ ڈیوٹی کرنے کیوں جائیں اور قومی خزانے پر اضافی بوجھ کس لیے؟

چنانچہ انڈیا میں نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 33 میں ترمیم کی گئی اور قرار دیا گیا کہ ایک آدمی صرف دو حلقوں سے الیکشن لڑ سکتا ہے۔ 2019 کے انتخابات کے بعد بھارتی الیکشن کمیشن نے اس پر بھی اعتراض کر دیا اور وہ سپریم کورٹ چلا گیا کہ یہ بھی مناسب نہیں کہ ایک آدمی دو حلقوں سے الیکشن میں حصہ لے۔

اب الیکشن کمیشن چاہتا ہے کہ ایک امیدوار کو صرف ایک حلقے سے الیکشن لڑنے کی اجازت ہو۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی الیکشن کمیشن یہ سب کچھ کر سکتا ہے تو پاکستانی الیکشن کمیشن کیوں نہیں کر سکتا؟

ہمارا الیکشن کمیشن بھی سوچ رہا ہو گا کہ وہ کیا کرے۔ جب اس کے ہر دوسرے فیصلے پر عدالتیں حکم امتناعی جاری کر دیں تو اس کی قوت نافذہ کون تسلیم کرے گا۔ اس کا انتخابی ضابطہ اخلاق بازیچہ اطفال بن چکا ہے۔ وہ کسی کے خلاف کارروائی شروع کرتا ہے تو متعلقہ فریق جا کر عدالت سے سٹے لے آتا ہے۔

شاید اسی تناظر میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابی معاملات میں سپیشلسٹ ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کوئی رٹ میں اڑاتا رہے۔

شہر اقتدار اس وقت افواہوں کی زد میں ہے۔ کسی کے خیال میں عمران خان جیت گئے تو سرشاری میں اسلام آباد مارچ کی کال دے سکتے ہیں۔ کہیں کوئی سرگوشی کر رہا ہے کہ نگران وزیراعظم کے لیے فلاں فلاں تین نام زیر غور تھے مگر دو نام حکومت نے رد کر دیے اور ایک نام تحریک انصاف نے۔

ان تین ناموں میں سے دو پر شدید حیرت کا اظہار کیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ اگر کامران ٹیسوری صاحب گورنر بن سکتے ہیں تو یہ حضرات نگران وزیراعظم کیوں نہیں بن سکتے؟ کسی کے خیال میں عمران کا کھیل ختم ہو چکا تو کسی کی رائے میں آج کے نتائج بتا دیں گے کہ عمران خان ہی لمحہ موجود ہیں اور یہ سب سے بڑی سیاسی حقیقت ہے۔

سیاسی اشرافیہ کے مفادات سے لپٹی اس ساری بحث سے قطع نظر اہم بات یہ ہے کہ جب ملک سیلاب میں ڈوب چکا، دنیا ہمارے لیے اظہار ہمدردی کے طور پر فنڈز کا بندوبست کر رہی ہے تو ہم ایسے لا یعنی ضمنی انتخابات کے چولہے میں کروڑوں روپے برباد کرنے جا رہے ہیں۔ ہے کوئی ہم سا؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مشتمل ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ