چارسدہ ضمنی الیکشن: کیا عمران خان اے این پی کا گڑھ فتح کرسکیں گے؟

این اے 24 چارسدہ سے ماضی میں عوامی نیشنل پارٹی کے اسفندیار ولی خان دو مرتبہ شکست کا سامنا کر چکے ہیں، تاہم جمعیت علمائے اسلام کی حمایت ایمل ولی خان کے لیے کامیابی کی وجہ بن سکتی ہے۔

عمران خان اور ایمل ولی خان ضلع چارسدہ کے حلقہ این اے 24 میں 16 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں آمنے سامنے ہوں گے  (اے ایف پی/ایمل ولی خان فیس بک/ انڈی گرافکس)

خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی تین خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد 16 اکتوبر کو ہوگا، جن کے لیے الیکشن کمیشن نے تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔

جن حلقوں میں ضمنی انتخابات ہونا ہیں، ان میں پشاور کا حلقہ این اے 31، مردان کا این اے 22 اور ضلع چارسدہ کا حلقہ این اے 24 شامل ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے نو حلقوں میں ضمنی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کیا تھا، جن میں مذکورہ تین حلقے بھی شامل ہیں۔

سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان تمام ضمنی انتخابات اپنی جماعت کے امیدوار کی حیثیت سے خود ہی لڑ رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے تین حلقوں میں بھی پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان میدان میں ہیں، جبکہ ان کے مد مقابل حکمران اتحاد پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) نے امیدوار کھڑے کر رکھے ہیں۔

آئندہ تین دنوں کے دوران انڈپیندنٹ اردو ان تمام حلقوں کی سیاسی منظر نامے پر رپورٹیں شائع کرے گا اور اسی سلسلے کی پہلی رپورٹ چارسدہ سے پیش خدمت ہے۔

این اے 24 چارسدہ کے لیے عمران خان کے مقابلے میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے نوجوان صوبائی صدر اور جماعت کے سربراہ اسفند یار ولی خان کے بیٹے ایمل ولی خان پی ڈی ایم کے امیدوار ہیں۔

ایمل ولی خان کو پی ڈی ایم میں شامل دوسری سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہو گی جبکہ جماعت اسلامی نے مجیب اللہ کو اس حلقے سے اپنے امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں کھڑا کیا ہے۔

ایمل ولی خان نے 2018 کے عام انتخابات میں ضلع چارسدہ سے خیبر پختونخوا اسمبلی کے حلقے پی کے 58 سے پہلی مرتبہ اپنی انتخابی سیاست کا آغاز کیا تھا، پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار سلطان محمد 28 ہزار سے زیادہ ووٹوں کے مقابلے میں 22 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے شکست سے دوچار ہوئے تھے۔

این اے 24 کا ماضی

این اے 24 ضلع چارسدہ کے دو حلقوں میں سے ایک ہے اور شبقدر اور تنگی تحصیل پر مشتمل ہے، جن کی مجموعی آبادی آٹھ لاکھ سے زیادہ ہے۔

ماضی میں یہ حلقہ این اے 7 کہلاتا تھا، تاہم 2018 میں  نئی حد بندیوں کے بعد اسے این اے 24 کا نام دیا گیا۔ (یاد رہے کہ یہ ضمنی انتخابات پرانی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر ہو رہے ہیں، جس میں تحصیل چارسدہ شامل ہے۔)

اس حلقے میں ماضی میں کسی ایک مخصوص سیاسی جماعت کا اثر و رسوخ نہیں رہا ہے، بلکہ مختلف انتخابات میں الگ الگ سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں۔

گذشتہ انتخابات کے نتائج کی روشنی میں نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمٰن این اے 24 چارسدہ میں خاطر خواہ حمایت اور ووٹ بینک رکھتی ہے۔

این اے 24 چارسدہ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کو یہاں سے دو مرتبہ شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

سال 2002 میں ہونے والے عام انتخابات میں یہاں سے متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے مولانا محمد گوہر شاہ نے کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ 2008  میں قرعہ فال عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کے نام نکلا تھا۔  

تاہم 2013  کے عام انتخابات میں این اے 24 چارسدہ دوبارہ مولانا گوہر شاہ کے حصے میں آیا اور انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار فضل محمد اور عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کو شکست دی تھی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 2018 میں پہلی مرتبہ یہاں سے الیکشن جیتا، جب ان کے امیدوار فضل محمد خان 83 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے  این اے 24 چارسدہ سے کامیاب لوٹے۔

پی ٹی آئی کے فضل محمد خان نے جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمان کے مولانا گوہر شاہ اور اسفندیار ولی خان کو شکست دی تھی۔

 فضل محمد خان کے مقابلے میں اسفندیار ولی خان 59 ہزار سے زیادہ ووٹوں کے ساتھ دوسرے اور متحدہ مجلس عمل کے مولانا گوہر شاہ 38 ہزار سے زیادہ ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے تھے۔

این اے 24 چارسدہ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کا آبائی حلقہ ہے اور یہاں متحدہ مجلس عمل کو دوسری بڑی سیاسی قوت کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔

تاہم 2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے ملک کے دوسرے حصوں کی طرح یہاں بھی روایتی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو شکست سے دوچار کیا تھا۔

آئندہ چند روز میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج سے معلوم ہو گا کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) میں شامل سیاسی جماعتوں کے اتحاد کو شکست دینے میں کامیاب ہوں سکیں گے یا نہیں؟ 

کیا ایمل ولی چارسدہ میں عمران خان کا مقابلہ کر پائیں گے؟

 ضمنی انتخابات میں چارسدہ کے اس حلقے پر دلچسپ انتخابات متوقع ہیں کیونکہ ایمل ولی خان سوشل میڈیا پر بہت فعال نظر آ رہے ہیں اور بارہا انہوں نے عمران خان کو چیلنج بھی کیا ہے۔

حال ہی میں پی ٹی آئی کی جانب سے اس کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر ہونے کے بعد ایمل ولی خان نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں اسے عمران خان کی جانب سے انتخابات سے بھاگنے کا راستہ ڈھونڈنا قرار دیا تھا۔

مبصرین کے مطابق اگر پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) میں شامل جماعتوں خصوصا جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمٰن نے ایمل ولی خان کو سنجیدگی سے ووٹ دیا تو وہ اس حلقے سے کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔

مبصرین کے خیال میں ماضی کی پارٹی پوزیشن اور ووٹوں کی گنتی سے لگتا ہے کہ اس حلقے میں جے یو آئی ف کا ایک بڑا ووٹ بینک موجود ہے۔

 خیبرپختونخوا کے سیاسی معاملات کی رپورٹنگ کرنے والے پشاور کے صحافی لحاظ علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے ایمل ولی کو ووٹ دیا تو وہ عمران خان کو شکست دے سکتے ہیں۔‘ 

تاہم ان کے خیال میں جمیعت علمائے اسلام این اے 24 چارسدہ کے ضمنی انتخابات میں ایمل ولی کو ووٹ دے کر اپنے لیے 2023 کے عام انتخابات میں مسائل کھڑے کرنا نہیں چاہے گی۔

لحاظ علی کا کہنا تھا: ’جمیعت علما اسلام کبھی نہیں چاہے گی کہ ایمل ولی کو کامیابی دلا کر حلقے میں اے این پی کی پوزیشن مستحکم کی جائے، بلکہ جے یو آئی ف کا ورکر یا تو ووٹ نہیں دے گا اور اگر دے گا بھی تو کسی نیوٹرل امیدوار کے حق میں دے گا جس کے جیتنے کے امکانات کم ہوں۔‘

نوجوانوں میں عمران خان کی مقبولیت کا ذکر کرتے ہوئے لحاظ علی کا کہنا تھا کہ یہ مظہر ضلع چارسدہ میں بھی نظر آتا ہے، جہاں ایک خاندان میں والدین کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوں لیکن ان کا نوجوان بیٹا پی ٹی آئی کا حمایتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم لحاظ علی سمجھتے ہیں کہ ایمل ولی خان اپنے والد اسفند یار ولی خان کے برعکس عوامی رابطوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور عوام خصوصاً نوجوانوں کو وقت دیتے ہیں۔  

عوامی نیشنل پارٹی نے 2018 کے انتخابات میں 59 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے، جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمٰن کے مولانا گوہر شاہ نے بحیثیت ایم ایم اے امیدوار 38 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔

اعداد و شمار کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ جمیعت علمائے اسلام کی حمایت کی صورت میں ایمل ولی خان آسانی سے ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ یہاں سے پی ٹی آئی نے 2018 کے انتخابات میں اے این پی کو صرف 22 ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست دی تھی۔

تاہم بعض سیاسی مبصرین کے مطابق جمیعت علمائے اسلام عمران خان کی نفرت کے باوجود این اے 24 چارسدہ میں ایمل ولی خان کو ووٹ نہیں دے گی۔

پشاور کے صحافی محمود جان بابر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بظاہر تو جمیعت علمائے اسلام ایمل ولی کو کامیاب نہیں کرنا چاہے گی، کیونکہ ایمل ولی خان ماضی میں مولانا فضل الرحمٰن کو بہت زیادہ ٹارگٹ کرتے رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’صوبے میں اے این پی اگر کسی سیاسی جماعت کو اپنی مضبوط اپوزیشن سمجھتی ہے تو وہ جمیعت علمائے اسلام ہے، لیکن جمیعت علمائے اسلام کو چارسدہ سے عمران خان کی کامیابی بھی برداشت نہیں ہو گی۔‘

محمود جان سمجھتے ہیں کہ چارسدہ میں ہونے والے یہ ضمنی انتخابات جمیعت علمائے اسلام کے لیے عمران خان کو ہرانے کا ایک بہترین موقع ہے۔

 انہوں نے بتایا: ’اب اس ساری صورت حال میں یہ بات واضح ہے کہ عمران خان کے لیے یہ حلقہ جیتنا اتنا آسان نہیں کیونکہ اس حلقے میں جمعیت علمائے اسلام کا کافی ووٹ بینک موجود ہے، جبکہ دوسری جانب ایمل ولی کے لیے بھی جے یو آئی کے ووٹ کا حصول مکمل طور پر یقینی نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست