عمران خان کو شکست دینے والے عبدالحکیم بلوچ کون ہیں؟

اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سات حلقوں میں سے صرف ایک حلقے میں ہارے جس میں انہیں پیپلز پارٹی کے عبدالحکیم بلوچ کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

عبدالحکیم بلوچ 32 ہزار 567 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ عمران خان 22 ہزار 493 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے (اے ایف پی/عبدالحکیم بلوچ فیس بک)

اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سات حلقوں میں سے صرف ایک حلقے میں ہارے۔  

ان سات حلقوں میں پیپلز پارٹی کے عبدالحکیم بلوچ وہ واحد امیدوار تھے جو عمران خان کو زیر کر سکے۔ حلقہ این اے 237 ملیر ٹو سے پیپلز پارٹی کے امیدوار عبدالحکیم بلوچ نے عمران خان کو دس ہزار ووٹوں سے شکست دی۔

عبدالحکیم بلوچ 32 ہزار 567 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ عمران خان 22 ہزار 493 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

الیکشن کے غیر سرکاری نتائج آنے کے بعد گذشتہ رات دیر گئے جاری اپنے بیان میں عبدالحکیم بلوچ نے کہا کہ کراچی کے عوام نے 2018 کی الیکشن کا بدلہ لے کر عمران خان کو مسترد کر دیا اور اب عمران خان کو اپنا بیانیہ تبدیل کرنا پڑے گا۔ 

عبدالحکیم بلوچ کون ہیں؟  

عبدالحکیم بلوچ  کراچی کے ضلع ملیر میں واقع درسانو چھنو سے متصل گاؤں دُرمحمد گوٹھ کے رہائشی ہیں۔  

عبدالحکیم بلوچ نے کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ سے 1979 میں الیکٹرانک انجنیئرنگ میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔  

وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر رکن سندھ اسمبلی بھی رہے اور صوبائی وزیر بھی مقرر ہوئے۔  

2013 کے عام انتخابات سے پہلے وہ پیپلز پارٹی سے ناراض ہوکر مسلم لیگ ن میں چلے گئے تھے اور ان انتخابات میں پورے سندھ میں پاکستان مسلم لیگ ن نے جو واحد نشست جیتی اور وہ عبدالحکیم بلوچ نے جیتی تھی۔

الیکشن کے بعد انہیں طاقتور وفاقی وزیر برائے ریلویز خواجہ سعد رفیق کی موجودگی میں بے اختیار ریلویز کا وزیر مملکت بنا دیا گیا جس پر انہوں نے وزیراعظم نواز شریف سے شدید احتجاج کیا۔  

انہیں جون 2015 میں مواصلات کی وزارت کا قلم دان دیا گیا مگر اختیارات نہ ملنے پر ان کا احتجاج جاری رہا۔

عبدالحکیم بلوچ نے اپنے وزارت اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے بظاہر یہ کہہ کر استفیٰ دے دیا کہ ان کے حلقے کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے وزیر اعظم نواز شریف سے بار بار درخواست کی مگر ان کی ایک بھی نہیں سنی گئی۔ مگر اصل وجہ بے اختیار وزارت پر ان کی برہمی تھی۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جس کے بعد نواز لیگ کے رہنما کیپٹن صفدر نے عبدالحکیم بلوچ سے ملاقات کر کے انہیں یقین دہانی کرائی کہ جلد ہی ان کے تمام مطالبات مان لیے جائیں گے۔ جس پر انھوں نے استعفیٰ واپس لے لیا۔  

لیکن ان کے اختیارات بحال نہیں کیے گئے۔ ان سے پوچھے بغیر جب ان کی وزارت میں شاہد اشرف تارڑ کو سیکریٹری مقرر کیا گیا اور بعد میں شاہد اشرف تارڑ نے ان کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا۔  

وزارت مواصلات کے ایک سابق افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ عبدالحکیم بلوچ شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کئی ماہ تک اپنے آفس میں نہیں بیٹھے اور احتجاج کے طور پر 2016 میں کراچی میں ہونے والی کراچی، لاہور موٹروے کی تقریب کا بائیکاٹ کیا۔  

بعد میں احتجاج کے طور پر انہوں نے مئی 2016 میں نہ صرف وزارت اور اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا بلکہ مسلم لیگ ن سے بھی علیحدگی اختیار کرکے پیپلز پارٹی میں شمولیت حاصل کر لی۔ بعد میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے دوران پیپلز پارٹی ٹکٹ پر دوبارہ الیکشن جیت کر یہ سیٹ اپنے پاس رکھی۔  

2016 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوران ان پر دباؤ تھا کہ وہ ضلعی میونسپل کارپوریشن ملیر میں ایک انتخاباتی الائنس بنائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے انہیں پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دی مگر انھوں نے انکار کر دیا تھا۔  

اس نشست پر 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے کیپٹن ریٹائرڈ جمیل خان نے عبدالحکیم کو شکست دی۔ 

اب دوبارہ ضمنی انتخابات میں وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر قومی اسمبلی میں واپس آئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست