ایک کالم عمران خان کے نام

عمران خان کو پہلے بھی عدالتوں سے ریلیف تو مل ہی رہا ہے، عین ممکن ہے اس کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے۔ سسٹم کو چلتے رہنا چاہیے، اسی میں سب کی بھلائی اور پاکستان کی بہتری ہے۔

یہ درست ہے کہ عمران خان کی ضمنی انتخابات میں مسلسل کامیابی ایک بڑا عنصر ہے لیکن یہ ایسا سنگین دباؤ بھی نہیں کہ حکومت زیر ہونے پر آمادہ ہو جائے (اے ایف پی)

ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ حالات ایک بار پھر کم و بیش اسی دوراہے پر آ کر کھڑے ہو گئے ہیں جہاں 25 مئی کے عمران خان کے لانگ مارچ کے قریب قریب تھے۔

19 مئی کو ایک اعلیٰ ترین حکومتی شخصیت نے ایک اور اہم ترین ریاستی شخصیت سے رابطہ کر کے اس فیصلے سے آگاہ کیا کہ مسلم لیگ ن حکومت سے استعفیٰ دینے کو تیار ہے اور جلد الیکشن کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اس فیصلے کی حتمی منظوری لندن سے بھی آ چکی تھی۔

عمران خان لانگ مارچ کی آخری تیاریوں میں مصروف تھے اور حکومت پر مسلسل دباؤ بڑھاتے چلے جا رہے تھے۔ دو فیصلہ سازوں کے مابین ہوتی اس اہم ترین حتمی گفتگو، جس نے ملکی سیاست کا رخ ہی موڑ دینا تھا، ابھی جاری تھی کہ ایک اور اہم شخصیت نے توجہ مبذول کروائی کہ فوری حکومت ختم کر دینے  کی صورت میں چند روز بعد ہونے والی آئی ایم ایف ڈیل شدید متاثر ہو جائے گی کیونکہ اگر مسلم لیگ ن حکومت سے الگ ہو جاتی ہے تو نہ تو حکومت رہے گی نہ ہی کوئی وزیر خزانہ ہو گا تو پھر آئی ایم ایف سے فائنل مذاکرات کون کرے گا اور معاشی ڈیل پر دستخط کس کے ہوں گے؟ وہ بھی ایسے وقت میں جب ملک کے دیوالیہ ہونے کے لالے پڑے ہوں۔

اس کڑے خدشے کے پیشِ نظر تحریک انصاف سے رابطہ کیا گیا جہاں اسد عمر اور پرویز خٹک موجود تھے۔ انہیں مسلم لیگ ن کے حکومت ختم کرنے کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا لیکن ساتھ ہی آئی ایم ایف والے معاملے کی طرف بھی توجہ دلائی گئی۔

طویل بات چیت کے بعد طے یہ پایا کہ عمران خان لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان نہیں کریں گے، حکومت آئی ایم ایف ڈیل حاصل کر لے گی اور اس کے بعد اقتدار سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے فوری الیکشن میں جایا جائے گا۔

تحریک انصاف کے رہنماؤں کی طرف سے یقین دہانی کروائی گئی کہ وہ انہی نکات پر عمران خان سے بات کر کے انہیں راضی کر لیں گے، لیکن عمران خان نے اس سنہری موقع کو جذباتیت، جلدبازی اور سیاسی کوتاہ نظری کے سپرد کرتے ہوئے چند روز کا انتظار کرنا مناسب نہ سمجھا اور لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا، جس سے پسِ پردہ ہوتے مذاکرات اور ن لیگ کے انتہائی کلیدی فیصلے پر ضرب پڑی اور حکومت نے لانگ مارچ کی تاریخ کے دباؤ میں آ کر اقتدار سے علیحدگی کے عوامی تاثر کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ہی فیصلے سے صرفِ نظر کر لیا اور یوں مکمل بازی ہی پلٹ گئی۔

مئی کے اواخر میں ہوتے مذاکرات میں عمران خان اگر ذرا سے سیاسی صبر و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتے تو آج حالات قطعی مختلف ہوتے۔

چھ ماہ بعد ایک بار پھر، اکتوبر کے اواخر میں چند اہم ریاستی شخصیات کی سفارشوں، کوششوں، مہربانیوں اور سہولت کاریوں کی بنا پر دوبارہ سے حکومت اور عمران خان کی تحریک انصاف کے درمیان ٹوٹی ہوئی بات چیت کا سلسلہ جوڑا تو گیا ہے لیکن اعتماد کے بحران کی ایسی طویل خلیج حائل ہے جسے پاٹنا ناممکن نہیں تو جوئے شیر لانے کے مترادف ضرور ہے۔

بظاہر تو فی الوقت کوئی ایسی وجہ بھی نظر نہیں آتی کہ مسلم لیگ ن ایک بار پھر حکومت سے علیحدگی کا آپشن مذاکرات کی میز پر رکھ دے۔ مئی کے مہینے میں چونکہ نومولود حکومت کو آئے صرف ایک ہی ماہ ہوا تھا، لہذا اقتدار کی دودھ چھڑائی آسان تھی، مگر اب کم و بیش سات ماہ کے عرصے بعد ایسا ہونا سیاسی خودکشی کے قریب قریب کا آپشن ہی معلوم ہو گا۔

یہ درست ہے کہ عمران خان کی ضمنی انتخابات میں مسلسل کامیابی ایک بڑا عنصر ہے لیکن یہ ایسا سنگین دباؤ بھی نہیں کہ حکومت زیر ہونے پر آمادہ ہو جائے۔

اسحاق ڈار کی واپسی کی صورت میں وفاقی حکومت پہلے ہی معاشی اعتبار سے پُراعتماد فوٹنگ پر آ چکی ہے اور اسے امید ہے کہ آئندہ چھ سے سات ماہ میں معاشی معاملات پر گرفت کم از کم اتنی اچھی ضرور کر لی جائے گی کہ عوام کو ریلیف دینے کی پوزیشن میں آ جایا جائے۔

عمران خان الیکشن کمیشن سے نااہل قرار پائے ہیں، پنجاب میں پرویز الٰہی تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے لیے کتنی سپورٹ مہیا کرتے ہیں اس بارے میں خود پی ٹی آئی بھی پُریقین نہیں ہے۔

خیبرپختونخوا سے عوام کی بڑی تعداد لانگ مارچ میں نکلنے کے لیے تیار نہیں ہے، خود تحریک کے اندر لانگ مارچ کو لے کر بہت بڑی تقسیم موجود ہے۔ یہ وہ تمام کلیدی عناصر ہیں جن کی بنا پر اس بار مذاکرات کے لیے عمران خان کی ’بارگیننگ پوزیشن‘ مضبوط نہیں ہے۔

اس مرتبہ بات چیت حکومت سے زیادہ عمران خان کی مجبوری ہے اور اس لیے سفارش بھی تحریک انصاف کی جانب سے ہی ایک اہم ریاستی شخصیت کے ذریعے کروائی گئی ہے۔

ملکی حالات تقسیم، تفریق اور انتشار کی ایسی اتھاہ گہرائیوں کی طرف مسلسل لڑھکتے ہی چلے جا رہے ہیں کہ تاریخی اعتبار سے ماضی میں سیاسی سٹیک رکھنے والے حالیہ سہولت کار ریاست کی ایسی تنزلی پر خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھ سکتے۔

عوام اور ریاست کی فلاح اور کامیابی میں ان کا بھی اتنا ہی حصہ اور کردار ہے جتنا قوم کے کسی بھی اور طبقے کا، لیکن سیاسی تقسیم اور تفریق جب نفرت کی ایسی حدوں کو چھونے لگے کہ جہاں ریاست کی بقا کا سوال آن پڑے تو پھر نظام کی مضبوطی اور عوامی فلاح کے آفاقی اصول کے پیشِ نظر سخت حالات میں سخت فیصلے مجبوری کی صورت ہی اختیار کر جاتے ہیں جن پر تنقید بھی لاکھ کوششوں کے باوجود خود اپنا جواز تلاش نہیں کر پاتی۔

انہی حالات کے مدنظر ایک اور موقع فراہم کیا گیا ہے کہ عوام کے نمائندے اور حکومت کے دعویدار ایک بار پھر ایک میز پر آن بیٹھیں اور آپس کے معاملات آپس میں ہی نمٹانے کی ایک اور سعی کر دیکھیں۔ امید ہر جانب موجود ہے کہ اس کاوش میں سے ملک اور اس کے عوام کے لیے بہتری کا کوئی درمیانہ راستہ نکالا جا سکے وگرنہ پاکستان میں تیسرا راستہ تو ہمیشہ ہی موجود رہا ہے جو کڑوے گھونٹ کی مانند سہنا ہی پڑتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکومت اور عمران خان دونوں پر کم از کم اتنا تو واضح ہو ہی جانا چاہیے کہ نظام بھی ایک حد تک دباؤ برداشت کرنے کی سہولت اور گنجائش برقرار رکھتا ہے۔ جب نظام پر دباؤ ناقابل برداشت حد تک بڑھ جائے تو اصول بقا و درستی کے تحت غیر قدرتی راستہ بھی اپنایا جا سکتا ہے۔

پانی کا کام ہے بہنا اور اگر اسے قدرتی گزرگاہ میسر نہیں ہو گی تو وہ حالیہ سیلاب کی طرح اپنا راستہ خود حاصل تو کرے گا لیکن اس عمل کے دوران ہر طرف تباہی ضرور پھیلے گی۔ نظام کی بقا بھی اسی قدرتی اصول کے ماتحت رائج ہے۔ اس بقاکی قدرتی گزرگاہ برقرار رکھنا اور طاقت کا توازن بحال رکھنا انتہائی لازم ہے وگرنہ نظام اپنی بقا کا کوئی بھی راستہ ازخود تلاش کر لیتا ہے۔

اس بار مذاکرات کی کامیابی کا زیادہ بار اور ذمہ داری عمران خان اور تحریک انصاف پر عائد ہوتی ہے۔ لانگ مارچ تو اب خیر شاید ہی ممکن ہو اور اگر ہوا بھی تو کم از کم اکتوبر کے مہینے میں تو اس کا امکان ناممکنات میں سے ہو گا۔ اس صورت میں عمران خان کا ایک اور یوٹرن تو پہلے ہی عیاں ہو جاتا ہے جو ہر حال میں رواں ماہ ہی لانگ مارچ نکالنے پر مصر تھے۔

باقی ماندہ معاملات مذاکرات کی میز پر ہی حل کیے جا سکتے ہیں جن میں سیاسی لین دین کے پیمانے باہم رضامندی سے مقرر ہونے کے چانسز بہرحال موجود رہیں گے لیکن کسی بھی ممکنہ نتیجے کی صورت میں، چاہے وہ آر ہو یا پار، پوری ذمہ داری صرف اور صرف سیاسی لیڈر شپ کو ہی اٹھانی ہو گی۔

مذاکرات کامیاب ہوئے تو عوام کی بہتری کا ہی راستہ نکل سکتا ہے اور اگر ناکام ہوئے تو بھی ذمہ داری سیاسی قیادت کے ہی سر جائے گی، جس کی صورت میں عوام کے متنفر ہونے کے امکانات بڑھنے کا خدشہ برقرار رہے گا، لہذا امید کی جانی چاہیے کہ حکومت، عمران خان اور تحریک انصاف پرخلوص انداز میں صرف اور صرف پاکستان اور اس کے عوام کی بہتری کے مقصد کی خاطر آگے بڑھیں اور بات چیت کے اس عمل کے دوران درپیش آنے والی رکاوٹوں (مثلاً عمران خان کی نااہلی وغیرہ) کو اس کارروائی پر اثرانداز نہ ہونے دیں۔

عمران خان کو پہلے بھی عدالتوں سے ریلیف تو مل ہی رہا ہے، عین ممکن ہے اس کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے۔ سسٹم کو چلتے رہنا چاہیے، اسی میں سب کی بھلائی اور پاکستان کی بہتری ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ