انسانی حقوق کا عالمی دن: جبری گمشدگیوں کے قوانین پر تحفظات 

پاکستان کے وزیر قانون نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں یقین دلایا کہ ایچ آر سی پی  کی جانب سے جبری گمشدگیوں سے متعلق ترامیمی بل پر تحفظات کو دور کرنے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔ 

پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک کارکن نے 2016 میں جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے عالمی دن کے موقع پر اسلام آباد میں ایک احتجاج کے دوران پلے کارڈ اٹھا رکھا ہے (اے ایف پی)

دنیا بھر میں ہر سال 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا دن منایا جاتا ہے۔ اس سال اس دن کا عنوان ’وقار، آزادی اور انصاف سب کے لیے‘ رکھا گیا ہے۔  

پاکستان انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری قانون سازی بھی کرتا رہا ہے اور رواں سال بھی موجودہ قوانین میں بعض ترامیم کی گئیں۔ 

غیر سرکاری ادارے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے حال ہی میں منظور ہونے والے فوجداری قوانین (ترمیمی) بل 2022 پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔  

ایچ آر سی پی کی چیئر پرسن حنا جیلانی کے مطابق: ’اگرچہ یہ ترامیم جبری گمشدگی کے جرم کو تسلیم کرتی ہیں اور اسے ایک ایسا عمل قرار دیتی ہے، جس کے ذریعے ریاست کا کوئی کارندہ کسی فرد / افراد کو ان کی آزادی سے ’غیرقانونی طور پر محروم‘ کر دے، مگر یہ ترامیم ان ریاستی کارندوں کو سویلین نگرانی کی پہنچ میں لانے کے لیے نئے قانونی ڈھانچے کی ضرورت پوری نہیں کرتیں۔‘  

ان کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگیوں پر قابو پانے کے لیے مؤثر قانون میں اس طرح کی دفعات کا ہونا ضروری ہے، خاص طور پر ایسے ہزاروں الزامات اور شہادتوں کے تناظر میں جن سے تاثر ملتا ہے کہ اس عمل کی ذمہ داری ریاستی ایجنسیوں پر عائد ہوتی ہے۔  

حنا جیلانی کے مطابق ریاستی ایجنسیوں کے دائرہ اختیار کے تعین کے لیے بھی قانون سازی ضروری ہے۔ ’اس کے علاوہ مسودہ قانون متاثرین اور ان کے اہل خانہ کو معاوضے کی ادائیگی کے معاملے کا احاطہ نہیں کرتا اور نہ ہی یہ مجرموں کی جوابدہی کے مسئلے کا حل پیش کرتا ہے۔‘

حنا جیلانی کے خیال میں: ’جبری گمشدگیوں کو ایک الگ قانون کے طور پر لیا جائے۔ اس رجحان کی روک تھام کے لیے ہونے والی قانون سازی میں یہ ضمانت دی جائے کہ جس کسی کو بھی ان کی آزادی سے محروم کیا جائے گا انہیں قانونی طور پر قائم حراستی مرکز میں رکھا جائے گا اور متاثرین، ان کے اہل خانہ اور گواہان کو انتقامی کارروائیوں سے تحفظ فراہم کیا جائے گا۔‘  

حنا جیلانی کہتی ہیں کہ ’پاکستان کو جبری گمشدگیوں سے تمام افراد کی حفاظت کے عالمی میثاق پر دستخط اور توثیق بھی کرنی ہو گی۔‘ 

ان کے مطابق ایچ آر سی پی یہ بھی سمجھتا ہے کہ ایسے قوانین تبدیل کیے جائیں جو فوج کو سویلین افراد کی تحقیقات اور ٹرائل کرنے کا اختیار تفویض کرتے ہیں۔  

بقول حنا جیلانی: ’انسانی حقوق کے دفاع کار ادریس خٹک جنہیں آٹھ ماہ تک لاپتہ رکھا گیا اور پھر سکیورٹی ایجنسیوں نے ان کی حراست تسلیم کی، کو آرمی ایکٹ 1952 کے تحت سزا ملنا محض اتفاق نہیں۔‘ 

ایڈووکیٹ سپریم کورٹ صباحت رضوی نے کہا کہ جبری گمشدگیوں کے حوالے سے فوجداری قوانین (ترمیمی) بل 2022 ایوان سے منظور ہوا تھا، جس پر بعد میں کچھ اعتراضات آ گئے تھے۔  

’اس بل میں حکومت یہ مانتی ہے کہ جبری گمشدگیاں ہوتی ہیں لیکن قانون میں جبری طور پر گمشدہ افراد کے خاندانوں کے لیے معاوضے کا اعلان نہیں کیا گیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان جبری گمشدگیوں کے خلاف بین الاقوامی کنونشن کا حصہ نہیں ہے۔‘ 

وہ کہتی ہیں کہ ’اہم نکتہ یہ ہے کہ حکومت نے یہ ماننے کے باوجود کہ جبری گمشدگیاں ہوتی ہیں ایسے جرائم میں ملوث افراد کے خلاف اس بل میں کوئی سزا مقرر نہیں کی۔‘  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا ہے کہ دوران حراست جو اموات واقع ہوتی ہیں، اس کی سزا اور معاوضے کے لیے بھی حکومت نے اس بل میں کوئی قدم نہیں اٹھایا۔  

’اگر مرنے والا اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا اور وہ دوران حراست جان سے چلا گیا تو ریاست اس کے لواحقین کے لیے کیا کرے گی؟ یہ بھی واضح نہیں ہے۔‘ 

صباحت رضوی نے تجویز دی کہ ’سب سے پہلے تو پارلیمنٹ کو کوششیں کرنی چاہیے کہ پاکستان بین الاقوامی کنونشن پر دستخط کر کے جبری گمشدگیوں کے خلاف بین الاقوامی کمیونٹی کا حصہ بنے تاکہ حکومت اقوام متحدہ کی جانب سے جبری گمشدگیوں کے حوالے سے وضع کردہ اصولوں پر عمل درآمد کر سکے۔‘  

انڈپینڈنٹ اردو نے جبری گمشدگیوں کے قوانین میں ترامیم پر مختلف حلقوں کے اعتراضات کے حوالے سے متعلقہ  سرکاری عہدیداروں کا ردعمل جاننے کے لیے متعدد اور کئی دن تک مسلسل کوشش کی لیکن کوئی جواب نہ مل سکا۔  

بالآخر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ سے جب رابطہ ممکن ہوا تو ان کا کہنا تھا: ’میں بہت زیادہ مصروف ہوں آج کل اور آپ کے سوالوں کے جواب کے لیے وقت درکار ہے جو میں مصروفیت کے باعث تفصیل سے ابھی نہیں دے سکتا۔‘  

البتہ وزیر قانون کا کہنا تھا: ’میں یہ ضرور یقین دلا تا ہوں کہ کمیشن برائے انسانی حقوق کی جانب سے جو اعتراضات آئے ہیں، ان تحفظات کو دور کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘  

جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کی بازیابی کے لیے حکومت نے ایک کمیشن بھی تشکیل دیا تھا۔ لاپتہ افراد کے لواحقین اس کمیشن کے سامنے اپنی شکایات بھی درج کروا سکتے ہیں، تاہم سالہا سال کی کوششوں کے باوجود جبری گمشدگیوں کے معاملے پر کوئی تسلی بخش پیش رفت نہیں ہو سکی اور اس بارے میں ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے جج بھی ریمارکس دیتے رہے ہیں۔  

حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے بعد بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیئر سیاست دان اختر مینگل کی سربراہی میں بھی ایک کمیشن بنایا گیا، جس کا مقصد بلوچ نوجوانوں کے مسائل کا حل تلاش کرنا اور بلوچستان سے مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والوں افراد سے متعلق حقائق جاننا اور ان کی بازیابی کے لیے کوششیں شامل ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان