تین برس میں جبری گمشدگیوں کا دائرہ بڑھا:ہیومن رائٹس کمیشن

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سربراہ حنا جیلانی کے مطابق تحریک انصاف حکومت کے تین سالوں کے دوران جبری گمشدگیوں کا جغرافیائی دائرہ بڑھا ہے۔ ’اب بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے علاوہ پنجاب سے بھی لوگوں کو اٹھائے جانے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔‘

اسلام آباد، 2019 میں ایک احتجاج کے دوران بزرگ اپنے گمشدہ رشتے دار کی تصویر تھامے ہوئے (فائل تصویر: اے ایف پی)

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے اپنی تین سالہ دور اقتدار کے دوران انسانی حقوق کے میدان میں بنیادی بشری حقوق کے تحفظ کے علاوہ مساوات، وقار، اور آزادی کو یقینی بنانا اپنا اولین مقصد (وژن) قرار دیا ہے۔ 

پاکستان تحریک انصاف حکومت نے جمعرات کو وزارت اطلاعات و نشریات کی تیار کردہ ڈھائی سو صفحات پر مشتمل ’تین سالہ کارکردگی رپورٹ اگست 2018 تا 2021‘ جاری کی، جس میں وفاقی حکومت کے 43 ڈویژنوں کے وژن اور کارکردگی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ 

مذکورہ رپورٹ میں پاکستان میں تحریک انصاف کے تین سالہ دور اقتدار میں انسانی حقوق کے سلسلے میں کئی خواہشات، اقدامات اور پالیسیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔  

رپورٹ کے مطابق معاشرے میں موجود کمزور گروہوں کے حقوق کا تحفط، قانون سازی اور ضابطوں کی تیاری کو عالمی بشری حقوق کے کنونشنز کے مطابق بنانا، آئین پاکستان میں درج انسانی حقوق کے تحفظ اور ترقی کی خاطر پالیسیاں بنانے کے علاوہ ادارہ جاتی میکنزم اور استعداد میں اضافہ کرنا، انسانی حقوق خلاف ورزیوں کی صورت میں ازالے کے ںطام کا قیام، عوام میں انسانی حقوق سے متعلق آگہی کو اجاگر کرنا اور باہمی احترام، برداشت اور برابری کے کلچر کو فروغ دینا جیسے کاموں کو وازرت کے مقاصد کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ 

انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے مجموعی صورت حال کے علاوہ دو دوسرے موضوع بہت اہم ہیں جن میں میڈیا اور لاپتہ افراد (مسنگ پرسنز )کا معاملہ شامل ہے۔  

واضح رہے کہ میڈیا کی آزادی اور جبری گمشدگیوں کے معاملات کا انسانی حقوق سے براہ راست تعلق ہے، اگرچہ حکومت کی کارکردگی رپورٹ میں میڈیا پر الگ باب میں بحث کی گئی ہے۔ 

انسانی حقوق کی مجموعی صورت حال 

تحریک انصاف حکومت کی کارکردگی رپورٹ میں دو درجن کے قریب ایسے اقدامات کا ذکر ہے جو متعلقہ وفاقی وزارت نے ملک میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے گزشتہ تین سالوں کے دوران اٹھائے، جن میں قانون سازی اور نئے اداروں کا قیام اور موجود اداروں کی استعداد میں اضافے کا ذکر شامل ہیں۔ 

پاکستان میں بشری حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سربراہ حنا جیلانی کے خیال میں صرف قانون سازی کے ذریعے مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا۔  

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قانون پر عمل درآمد کے لیے مضبوط اداروں کا قیام اور سنجیدہ اپروچ کے ذریعے ہی انہیں عام شہریوں کے لیے فائدہ مند بنایا جا سکتا ہے۔   

ان کا کہنا تھا: ’گزشتہ تین سالوں میں قانون سازی کا ٹرینڈ بہت مثبت رہا، لیکن اس عرصے میں بنایا گیا کوئی قانون آپریشنل نہیں ہے، کیونکہ کوئی ادارہ ہی نہیں بنایا گیا۔‘ 

حنا جیلانی کا مزید کہنا تھا: ’تحریک انصاف حکومت کی پروپیگنڈہ مشین بہت اچھی ہے، لیکن سب سے بڑی کوتاہی یہ ہے کہ قوانین جن ایشوز کو ڈیل کرتے ہیں وہ خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں۔‘ 

اس سلسلے میں انہوں نے چائلڈ میرج اور وومن پروٹیکشن ک علاوہ دوسرے کئی قوانین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ایسے قانون لانے کے وعدے تو کرتی رہی ہے، لیکن اب نہیں معلوم یہ کہا ہیں؟ 

ایچ آر سی پی کی سربراہ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت سابقہ اقدار کی نسبت زیادہ اختیارات اور طاقت میں کمی آئی ہے۔ 

ان کے خیال میں تحریک انصاف حکومت کے تین سالہ دور اقتدار میں پاکستان میں جمہوریت کی ترقی کم ہوئی ہے، اور مختلف اداروں کے علاوہ سول سوسائٹی بھی کمزور ہوئی ہے۔ 

تاہم انہوں نے کرونا وائرس کی وبا کے دوران اٹھائے گئے بعض حکومتی اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے کہا: ’انہوں نے کوشش کی ہے کہ کسی طرح لوگوں کی مدد کی جائے۔‘ 

حنا جیلانی نے مزید کہا کہ لوگوں کو سوشل سیکیورٹی فراہم کرنے کے سلسلے میں بھی عمران خان حکومت کے اقدامات قابل ستائش ہیں، تاہم ان کے خیال میں ان سکیموں سے ملک کی غریب ترین آبادہ مستفید نہیں ہو پائی ہے۔ 

میڈیا 

کارکردگی رپورٹ میں وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے باب میں وزارت کی طرف سے لیے گئے اقدامات میں پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے قیام کا ذکر موجود ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ میڈیا سے متعلق تمام ریگولیٹری اداروں کو پی ایم ڈی اے کی چھتری کے نیچے لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 

رپورٹ میں میڈیا کی بہتری کے لیے دوسرے کئی اقدامات کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جن کی اکثریت کا تعلق وزارت کے نیچے آنے والے مختلف اداروں کی کارکردگی سے ہے۔ 

تاہم پاکستان میں کارکن صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے سابق صدر مظہر عباس کا کہنا تھا کہ میڈیا کے حوالے سے تحریک انصاف حکومت کی کارکردگی بری رہی ہے۔ 

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ تین سال کے دوران چار مختلف وزیر رہے، تو یہ کارکردگی جو بتائی جا رہی ہے وہ کس وزیر کی تھی۔‘ 

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور پی ایم ڈی اے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ’میڈیا سے متعلق دوسرے ادارے جیسے تیسے کام کر رہے ہیں، ان کی کارکردگی کو بہتر بنایا جانا چاہیے، ان سب کو ایک ادارے میں ڈھالنے کی فہم سمجھ سے بالاتر ہے۔‘ 

انہوں نے کہا کہ صحافیوں کی تنظیمیں اور دوسرے ادارے پہلے ہی پی ایم ڈی اے کو مسترد کر چکے ہیں، لیکن حکومت بعض غیر معروف اور غیر نمائندہ افراد کے ذریعے اتھارٹی کے حق میں مہم چلا رہی ہے۔  

انہوں نے پی ایم ڈی اے کے قانون کا خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا: ’ٰاس سے سارا میڈیا حکومتی کنٹرول میں چلا جائے گا۔‘ 

ایچ آر سی پی کی سربراہ حنا جیلانی نے کہا کہ پی ایم ڈی اے ایک کالا قانون ہے جو یہ حکومت میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے لانا چاہ رہی ہے۔ ’اس سے میڈیا اور میڈیا کے اداروں کے بے انتہا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔‘ 

مظہر عباس کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان وزیر اعظم بننے سے پہلے میڈیا کو بہتر بنانے سے متعلق بڑے بڑے دعوے کرتے رہے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی وفا ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہا۔ 

انہوں نے کہا کہ صحافیوں کا اٹھایا جانا، معروف اینکرز کا سکرین غائب ہونا، ٹی وی چینلز کے نمبر آگے پیچھے کرنا وغیرہ حکومتی ناکامی کی عام مثالیں ہیں۔ 

جبری گمشدگی 

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس آف پاکستان کی سربراہ آمنہ مسعود جنجوعہ کے مطابق گذشتہ تین سال کے دوران لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف حکومت اس سلسلے میں سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت جبری گمشدگی سے متعلق قانون کا بل بھی تیار کر چکی ہے، جو قومی اسمبلی کی داخلہ امور کی کمیٹی نے منظور کر لیا ہے۔ 

انہوں نے امید ظاہر کی کہ جبری گمشدگی سے متعلق قانون جلد ہی پارلیمان سے منظور کروا لیا جائے گا۔ 

تاہم حنا جیلانی کے مطابق تحریک انصاف حکومت کے تین سالوں کے دوران جبری گمشدگیوں کا جغرافیائی دائرہ بڑھا ہے۔ ’اب بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے علاوہ پنجاب سے بھی لوگوں کو اٹھائے جانے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، جو بہت تشویشناک ہیں۔‘ 

انہوں نے صحافیوں کے اٹھائے جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مطیع اللہ جان اور اسد علی طور نے سپریم کورٹ تک میں کہا کہ انہیں اٹھانے والوں میں کون شامل تھے، لیکن اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان