قائمہ کمیٹی میں جبری گمشدگی سے متعلق غلط بیانی کرنے پر سزا کی تجویز

کمیٹی کی تجاویز میں بغیر ٹھوس ثبوت کے سرکاری ادارے یا محکمے کے سربراہان اور اہلکاروں کے خلاف جبری گمشدگی کی رپورٹ درج کروانے کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے۔ 

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ قائمہ کمیٹی کی سفارشات نے جبری گمشدگی کے متاثرین اور اس کے خلاف کام کرنے والوں کی امیدوں پر پانی پھر دیا ہے(اے ایف پی فائل)

پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے سے متعلق مجوزہ قانون میں کسی کے غائب ہونے سے متعلق غلط بیانی کی صورت میں درخواست کنندہ کو سزا اور جرمانہ کی شق شامل کرنے کی تجویز دی ہے۔ 

کمیٹی کی تجاویز میں بغیر ٹھوس ثبوت کے سرکاری ادارے یا محکمے کے سربراہان اور اہلکاروں کے خلاف جبری گمشدگی کی رپورٹ درج کروانے کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے۔ 

جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے والا فوجداری قوانین (ترمیمی) ایکٹ 2021 کا بل جون میں قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا، جس پر داخلہ کی قائمہ کمیٹی نے تقریبا چار ماہ بعد اس پر اپنی سفارشات تجویز کیں۔ 

مسنگ پرسنز کی بحالی کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی سربراہ آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا تھا کہ قائمہ کمیٹی کی سفارشات نے جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے سے متعلق قانون کے لیے ساری محنت پر پانی پھیر دیا ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگی کی اطلاع دینے والے کو ہی اپنا دعوی ثابت نہ کرنے کی صورت میں مجرم بنانے کا مطلب ہوا کہ کوئی ایسے واقعات کی رپورٹ ہی نہ کر سکے۔ 

ان کا کہنا تھا: ’جبری گمشدگی کا دعوی کرنے والا کوئی بھی شخص یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ اس کے پیارے کو اٹھایا گیا ہے، یقینا وہ سب ڈر کر پیچھے ہٹ جائیں گے۔‘

آمنہ مسعود جنجوعہ، جو گزشتہ کئی برسوں سے اپنے گمشدہ شوہر کی بازیابی کی کوششوں میں مصروف ہیں، نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کی تجاویز کو مان لیا لینا جبری گمشدگی کو جاری رکھنا ہی ہو گا۔

واضح رہے کہ جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے سے متعلق بل قائمہ کمیٹی کی سفارشات کے ساتھ قومی اسمبلی میں پیش ہونا ہے، اور وہاں سے منظوری کے بعد یہ قانون کی شکل اختیار کرے گا۔ 

مجوزہ قانون اور قائمہ کمیٹی کی ترامیم 

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کے مطابق اس وقت ملک میں تقریبا 1400 افراد غیر قانونی طریقے سے لاپتہ ہیں، جبکہ کچھ عرصے قبل تک یہ تعداد 2000 سے زیادہ تھی۔ 

گزشتہ چند سالوں کے دوران تقریبا 200 لاپتہ افراد کا سراغ مل گیا، اور تقریبا ساڑھے چار افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے ہیں، جبکہ 74 گمشدہ افراد کی موت کی تصدیق ہو چکی ہے اور 60 شہریوں سے متعلق اب بھی مکمل معلومات دستیاب نہیں ہے۔ 

اعلی عدلیہ کے علاوہ مسنگ پرسنز کمیشن نے بھی پاکستان میں جبری گمشدگی کی تصدیق کی ہے، اور سینیٹ میں پیش ہونے والی ایک خفیہ رپورٹ میں مسنگ پرسنز کی تعداد بھی بتائی گئی ہے۔ 

تحریک انصاف حکومت کے تحت جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کے لیے قانون کا بل کے تحت تعزیرات پاکستان اور کریمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) میں ترامیم تجویز کی گئیں ہیں۔ 

مجوزہ قانون میں جبری گمشدگی کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے: ’جبری گمشدگی کی اصطلاح سے مراد ریاست کے کسی نمائندے یا ایک فرد یا افراد کے گروہ، جو ریاست کے اختیار، مدد یا رضا مندی کے تحت کام کر رہا ہو، کے ہاتھوں کسی کی گرفتاری، حراست، اغوا، یا کسی کی آزادی سے محرومی کی کوئی بھی دوسری قسم، اور اس کے بعد (گمشدہ شخص کی) آزادی کی محرومی کے اعتراف سے انکار کرنا یا گمشدہ شخص کی حالت یا ٹھکانا خفیہ رکھنا ہے، اور یہ سب کچھ (جبری گمشدگی) کرنے والے شخص کو قانون کا تحفظ حاصل نہیں ہو گا۔‘ 

بل میں جبری گمشدگی پر عمل کرنے والوں کے علاوہ اس کا حکم دینے، یا اس پر اکسانے والوں کو بھی جرم میں ملوث قرار دیا گیا ہے، اور جبری گمشدگی میں ملوث فرد یا افراد کو بغیر وارنٹ گرفتاری اور زیادہ سے زیادہ دس سال قید کے علاوہ جرمانے کی سزا بھی مقرر کی گئی ہے۔ 

اقوام متحدہ کے غیر رضاکارانہ گمشدگیوں سے متعلق ورکنگ گروپ اس سال جون میں جبری گمشدگی کے مرتکب افراد کی سزا 10 سال سے بڑھا کر کم از کم 25 سال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ 

مسنگ پرسنز کے کیسز کرنے والے وکیل عمر ملک کا کہنا تھا کہ ملک کی اعلی عدلیہ نے کئی فیصلوں میں مذکورہ قانون بنانے کے احکامات دئیے ہیں، جبکہ پاکستان بین الاقوامی کنونشنز پر دستخط بھی کر چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس ظلم کی روک تھام کے لیے پاکستان میں جبری گمشدگی کو قانونا جرم قرار دیا جانا بہت ضروری ہے۔ 

بیشتر مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لیے کوشاں اسلام آباد کے وکیل ملک گیلانی نے کہا کہ مجوزہ بل کی تیاری مسنگ پرسنز کے گھر والوں اور رشتہ داروں کے لیے امید کی ایک کرن ثابت ہوئی تھی۔‘ 

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ قائمہ کمیٹی کی سفارشات نے جبری گمشدگی کے متاثرین اور اس کے خلاف کام کرنے والوں کی امیدوں پر پانی پھر دیا ہے۔ 

جھوٹی رپورٹس کو کیسے روکا جائے؟ 

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ ہر قانون میں غلط رپورٹنگ کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک میکنزم کا ہونا ضروری ہے، اور اسی لیے کمیٹی نے یہ شقیں بل میں داخل کرنے کی سفارشات کی ہیں۔ 

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے مزید کہا: ’اس میکنزم کی غیر موجودگی کوئی بھی اٹھ کر ریاستی اداروں اور ان کے اہلکاروں کے خلاف مقدمے درج کرتا رہے گا، جس کا سد باب بہت ضروری ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کمیٹی رکن کے خیال میں مجوزہ شقوں کی موجودگی کے باوجود بل جبری گمشدگی کو جرم قرار دیتا ہے، اور ایسا کرنے والوں کے لیے سزا کا تعین بھی کرتا ہے۔ 

تاہم سپریم کورٹ کے وکیل کرنل (ر) انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ جھوٹا مقدمہ اور اطلاع کی حوصلہ شکنی کے لیے پاکستان میں قوانین پہلے سے موجود ہیں، جو اس قانون کی صورت میں بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ 

انہوں نے کہا: ’جبری گمشدگی کے قانون میں کیس کرنے والے کو مشروط طور پر مجرم قرار دیا جانا ایسا ہی ہے جیسے کسی کو کہا جائے کہ آپ اپنے پیارے کی گمشدگی پر صبر کر لیں۔‘ 

وکیل عمر گیلانی نے کہا کہ تعزیرات پاکستان کی شقوں 182 اور 191 کے تحت جھوٹا یا بدنیتی کی بنیاد پر پرچہ کٹوانے کی صورت میں قید اور جرمانے کی سزائیں موجود ہیں۔ 

’جب قانون بھی ہے اور سزائیں بھی درج ہیں تو جبری گمشدگی کے قانون میں یہ نئی ڈالنے کی منطق سمجھ سے باہر ہے۔‘ 

جبری گمشدگی کے قانون کی مزید بہتری 

کرنل انعام الرحیم، جو بذات خود جبری گمشدگی کا سامنا کر چکے ہیں، نے کہا کہ مسنگ پرسنز سے متعلق قانون لانے سے پہلے ریاست کو لاپتہ افراد کا کھوج لگانے کی سعی کرنا چاہیے۔ 

’قانون لانے کا کیا فائدہ اگر ہزارو اب بھ لاپتہ ہیں، اگر ان کا نہیں پوچھا جاتا تو قانون لانے سے بھی فرق نہیں پڑنے لگا۔‘ 

وکیل عمر ملک کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگی سے متعلق قانون میں اس برائی کا شکار بننے والوں کا زیادہ خیال رکھا جانا چاہیے، تاکہ ان کی اور ان کے گھر والوں کی داد رسی ہو سکے۔ 

ان کا کہنا تھا کہا کہ اکثر گمشدہ افراد اپنے گھرانوں کے رزق کمانے والے ہوتے ہیں، اس لیے ریاست کے لیے ان خاندانوں کی معاشی امداد کا بندوبست کرنا بہت ضروری ہے، جبکہ ایسے گمشدہ افراد کو واپسی پر اور ان کے اہل خانہ کو معاشرے میں دوبارہ نارمل زندگی گزارنے کے لیے نفسیاتی علاج کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ 

عمر ملک کے خیال میں جبری گمشدگی سے متعلق قانون کو ایک مکمل پیکج کی صورت میں ہونا چاہیے جس میں ان تمام عوامل اور ان کے ممکنہ علاج کا ذکر ہونا ضروری ہے۔ 

انہوں نے جبری گمشدگی کی تحقیقات کے لیے سپیشل تحقیقاتی افسران کے بندوبست کی ضررت پر بھی زور دیا۔ ’جبری گمشدگی کی تحقیقات عام تفتیش سے بہت مختلف ہوتی ہے اس لیے پولیس اہلکاروں کی اس متعلق تربیت بہت ضروری ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان