حکومت نے جبری گمشدگیوں کے معاملے پر خصوصی کمیٹی تشکیل دے دی

پاکستان کی وفاقی حکومت نے جبری گمشدگیوں کے معاملے پر خصوصی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو اپنی رپورٹ اور سفارشات کابینہ کے سامنے رکھے گی۔

لاہور میں 30 اگست 2016 کی اس تصویر میں حقوق انسانی کے کارکنان جبری گمشدگیوں کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

پاکستان کی وفاقی حکومت نے جبری گمشدگیوں کے معاملے پر خصوصی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو اپنی رپورٹ اور سفارشات کابینہ کے سامنے رکھے گی۔

وزارت داخلہ کی جانب سے پیر کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اس خصوصی کمیٹی کے چیئرمین ہوں گے۔

نوٹیفیکیشن کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللّٰہ، وفاقی وزیر اسعد محمود، شازیہ مری، اسرار ترین، فیصل سبزواری اور آغا حسن بلوچ بھی اس کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔

وزارت داخلہ کی جانب جاری نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ لاپتہ افراد اور جبری گمشدگیوں سے متعلق پالیسی معاملات کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ کابینہ نے رواں ماہ 24 مئی کو کیا تھا۔ 

بیان کے مطابق وزارت داخلہ کمیٹی کو سیکرٹریٹ سپورٹ فراہم کرے گی۔

کمیٹی کو ہدایات کی گئی ہیں کہ وہ قانونی ماہرین، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو بھی بلا کر ان سے تجاویز لے اور اپنی رپورٹ اور سفارشات کابینہ کے سامنے رکھے۔

نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی کی رپورٹ اور سفارشات پر بحث کے بعد جبری گمشدگیوں کے حوالے سے پالیسی طے کی جائے گی اور فیصلے کیے جائیں گے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کے معاملے پر عدالتوں کی جانب سے متعدد بار سخت ریمارکس سامنے آ چکے ہیں۔

اسلام آباد ہائی كورٹ كے چیف جسٹس اطہر من اللہ رواں سال مارچ میں جبری گمشدگیوں سے متعلق درخواستوں كی سماعت کے دوران بھی کہا تھا کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق بننے والا كمیشن 11 سال میں سفارشات دینے میں ناكام رہا ہے، جبكہ اس كا كام ہی ایسے واقعات كی روک تھام كے لیے تجاویز پیش كرنا تھا۔

اسی طرح مارچ ہی کے مہینے میں جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کے حوالے سے اسلام آباد میں منعقدہ ایک سمٹ کے دوران نہ صرف سیاسی جماعتوں کے کردار بلکہ حکومتی مسنگ پرسنز کمیشن کی کارکردگی پر بھی تنقید کی گئی تھی اور کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر)  جاوید اقبال کو اس عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

لاپتہ افراد کے کمیشن کے اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟

لاپتہ افراد کے کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ چھ سالوں میں سب سے زیادہ کیسز سال 2021 میں درج ہوئے جن کی تعداد 1460 ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق سال 2020 میں 415، 2019 میں 800، 2018 میں 1098، 2017 میں 868 جبکہ 2016 میں 728 لاپتہ افراد کے کیسز درج ہوئے۔

اس کے علاوہ لاپتہ افراد کے کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ دس سالوں میں 3257 لاپتہ افراد واپس آئے ہیں جبکہ 228 افراد کی لاشیں ملی ہیں۔

پاکستان میں جبری طور پر لاپتہ افراد کے معاملے کو دیکھنے کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایات کے بعد وزارت داخلہ نےانکوائری ایکٹ 1956 کے تحت ’کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈ ڈس اپیئررنسز‘ (کمیشن برائے جبری گمشدگیاں)  تشکیل دیا جس کو بعد میں اقتدار میں آنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے دور میں ترمیم کر کے کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017 کا نام دیا گیا تھا۔

 انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ (آئی سی جے) نے جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے افراد کے معاملے کے لیے قائم کیے گئے کمیشن کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتے ہوئے کمیشن کی مدت میں توسیع نہ کرنے کی سفارش بھی کی تھی۔

انتظامیہ کا موقف:
ماضی میں سکیورٹی اداروں نے ہمیشہ جبری گمشدگیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ ’ہو سکتا ہے لاپتہ ہونے والوں میں سے کچھ افراد نے عسکریت پسند گروپوں میں شمولیت اختیار کی ہو۔‘

 2019 میں آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں بھی یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’ہر لاپتہ ہونے والا فرد ریاست سے منسوب نہیں ہوتا۔ جو افراد ریاست کے پاس ہیں وہ قانون کے تحت ہیں۔‘

علاوہ ازیں پاکستان نے بارہا بھارت پر بلوچستان میں عسکریت پسندی کو ہوا دینے کا الزام بھی عائد کیا ہے جس کی نئی دہلی مسلسل تردید کرتا رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان