ترکی اسرائیل تعلقات کے 72 سال پر ایک نظر

اسرائیلی انتخابی نتائج سے قطع نظر ترکی اور اسرائیل کے تعلقات معمول پر آنے کا عمل جاری رہنے کی توقع رکھنا غلط نہیں ہو گا۔

وزارت قومی دفاع کے پریس آفس کی جانب سے 27 اکتوبر 2022 کو جاری کی گئی اس تصویر میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کو انقرہ کے صدارتی کمپلیکس میں اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز کے ساتھ پوز دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے(اے ایف پی)

پچھلے دو ہفتوں میں اسرائیل کی طرف سے ترکی کے دو وزارتی دورے ہو چکے ہیں۔

18 اور 19 اکتوبر 2022 کو اسرائیلی وزیر برائے اقتصادیات اور صنعت اورنا باربیوائی نے انقرہ کا دورہ کیا اور وزیر تجارت مہمت موش اور وزیر خزانہ و تجارت نوریتین نباتی سے ملاقات کی۔

جب وزیر باربیوائی انقرہ سے روانہ ہو رہے تھے تو انہوں نے ٹوئٹر پر کہا، ’جو بیج لگائے گئے تھے وہ پھل دینے لگے ہیں۔‘

گذشتہ ہفتے 27 اکتوبر کو ایک دہائی سے زائد عرصے کے بعد ایک اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز ترکی پہنچے۔ انہوں نے انقرہ میں اپنے ہم منصب، وزیر قومی دفاع ہولوسی آکار سے ملاقات کی اور بعد ازاں صدر رجب طیب اردوغان نے ان کا استقبال کیا۔

یہ دورے اسرائیل میں منگل کو ہونے والے عام انتخابات سے قبل ہوئے ہیں۔

انتخابات میں بن یامین نتن یاہو کی لیکود پارٹی کی قیادت میں اتحاد، جس نے اسرائیل کی تاریخ میں سب سے طویل مدتی وزیراعظم کے طور پر خدمات انجام دی ہیں اور جو بدعنوانی کے الزامات کے باوجود دوبارہ وزیراعظم بننا چاہتے ہیں، یائر لاپڈ کی یش عتید پارٹی سے مقابلہ کریں گے۔

اسرائیلی انتخابی نتائج سے قطع نظر ترکی اسرائیل تعلقات کے معمول پر آنے کا عمل جاری رہنے کی توقع رکھنا غلط نہیں ہو گا۔

خیر، اسرائیل کی ریاست کے قیام سے لے کر اب تک دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی کشیدہ روش کی بنیادی وجوہات کیا تھیں؟ اس کے بعد رشتوں میں بحران سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ خطے اور اس سے باہر ترکی اسرائیل تعلقات کی بہتری کے اثرات کیا ہیں؟

ترکی اسرائیل تعلقات کی بیلنس شیٹ

اسرائیل نے اپنی آزادی کا اعلان 14 مئی 1948 کو کیا تھا، جس دن برطانوی مینڈیٹ ختم ہوا۔

اقوام متحدہ کے خصوصی کمیشن برائے فلسطین نے، جسے اقوام متحدہ نے ایک سال قبل تشکیل دیا تھا، دو منصوبوں پر توجہ مرکوز کی۔

ایک میں یہ تصور کیا گیا تھا کہ آزاد ریاست فلسطین کا ایک وفاقی ڈھانچہ ہو گا جو عرب اور یہودی حصوں پر مشتمل ہو اور دوسرے میں ریاست فلسطین کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرکے ان کے درمیان اقتصادی اتحاد ہو گا۔

عرب ممالک فلسطینی سرزمین پر ایک آزاد عرب ریاست کے قیام کے حق میں تھے۔ دوسری طرف سوویت یونین اور امریکہ نے تقسیم کے فیصلے کی حمایت کی اور اس کے نتیجے میں 29 نومبر 1947 کو فلسطین کو عربوں اور یہودیوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوا۔

پہلے پہل ترکی نے عرب ممالک کا ساتھ دیا اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کی۔ عدم استحکام کا خدشہ جو تقسیم خطے میں پیدا کر سکتا ہے، ترکی کے فیصلے پر اثر انداز ہوا۔

یہودی دہشت گرد تنظیمیں جو اسرائیلی ریاست کے قیام میں اثرانداز تھیں، ترکی میں تشویش کی نگاہ سے دیکھی جا رہی تھیں کیونکہ ان کے سوویت یونین کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور خدشہ تھا کہ اسرائیل سوویت کیمپ میں نہ چلا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ ترکی نے ٹرومین نظریے اور مارشل پلان کے بعد خارجہ پالیسی میں امریکہ کی حامی لائن اختیار کی، جس کے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلے پر بہت زیادہ اثر پڑا۔

درحقیقت ترکی نے 28 مارچ 1949 کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ اس وقت کے وزیر خارجہ نیکمتین صدک کے اپریل میں واشنگٹن کے دورے سے قبل کیا تھا۔ مارچ 1950 میں دونوں ممالک کے درمیان سفیروں کا تقرر کیا گیا۔

چار جولائی 1950 کو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور ادائیگیوں کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس طرح ترکی نے 1950 کی دہائی کے اوائل میں اسرائیل کی اناج کی نصف ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسے زرعی مصنوعات برآمد کیں۔

اس کے علاوہ اسرائیلی تعمیراتی کمپنیوں نے ترکی میں اہم منصوبے شروع کیے۔ اس وقت حیفہ شہر کے قریب کوہ کرمل پر اتاترک پارک بنایا گیا تھا۔

بغداد معاہدے کے قیام کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ اسرائیل نے اسے خطے میں اپنے وجود کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا۔

1956 میں سویز بحران کے ساتھ پیدا ہونے والی صورت حال کے نتیجے میں انہوں نے ترک سفیر کو مرکز کی طرف متوجہ کیا۔ اس کے بعد سے اسرائیل کے ساتھ ترکی کے تعلقات ایک اتار چڑھاؤ والے راستے پر چلنا شروع ہو گئے، جس کی تشکیل فلسطین کے مسئلے اور عام طور پر اسرائیل عرب تنازعے کے گرد ہوتی ہے۔

دوسری طرف 1958 میں ہونے والی ایک پیش رفت نے ترکی اور اسرائیل کے درمیان سکیورٹی اور انٹیلی جنس کے شعبوں میں گہرے تعلقات کی بنیاد رکھنے کی راہ ہموار کی۔

اسرائیل خطے کے غیر عرب ممالک کے ساتھ معاہدہ کرکے اپنی سلامتی کو مضبوط کرنا چاہتا تھا۔ اس طرح اسے ایک ماحولیاتی معاہدہ قائم کرنے کا خیال آیا جس میں ایران، ایتھیوپیا اور ترکی شامل ہوں گے۔ اس تجویز کی خاص طور پر امریکہ نے حمایت کی۔

اس وقت کے وزیراعظم بین گوریون اور اس وقت کی وزیر خارجہ گولڈا میئر نے ترکی کا خفیہ دورہ کیا اور اس وقت کے وزیراعظم عدنان میندریس اور اس وقت کے وزیر خارجہ فاٹین روشتو زورلو سے ملاقات کی۔

معاہدے کے فریم ورک کے اندر ’ٹرائیڈنٹ‘ نامی ایک میکانزم، ایک انٹیلی جنس نیٹ ورک بنایا گیا تھا۔

اگرچہ 1967 اور 1973 کی جنگوں کے ساتھ ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں ایک بار پھر تنزلی ہوئی، تاہم سکیورٹی اور انٹیلی جنس کے شعبے میں تعلقات پس منظر میں جاری رہے۔

ترکی نے 1975 میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کو تسلیم کیا اور 1979 میں انقرہ میں پی ایل او کی نمائندگی یاسر عرفات نے کی، جو اس وقت کے وزیراعظم بلند اسوت کی سرکاری دعوت پر ترکی آئے تھے۔

اسرائیل کی طرف سے 1978 سے مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1980 میں مشرقی بیت المقدس (یروشلم) کا الحاق اور کنیسیٹ میں یروشلم قانون کو تسلیم کر کے بیت المقدس ابدی دارالحکومت قرار دیا گیا اور وہاں قونصلیٹ جنرل کو بند کر دیا گیا۔ 

دوسری جانب 1987 میں شروع ہونے والی پہلی انتفاضہ پر ترکی میں گہری نظر رکھی گئی اور 15 نومبر 1988 کو جب عرفات کی قیادت میں فلسطینی نیشنل کونسل نے ریاست فلسطین کے قیام کا اعلان کیا تو ترکی نے اسی دن اعلان کیا کہ اس نے فلسطین کو تسلیم کر لیا ہے۔

1990 کی دہائی کے اوائل میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان شروع ہونے والے مذاکراتی عمل کے فریم ورک کے تحت ترکی اور اسرائیل کے تعلقات ایک بار پھر بہتر ہونا شروع ہوئے اور امریکہ کی جانب سے سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے دوران نئے ابھرتے ہوئے عالمی نظام میں اور خطے میں مستحکم اور قابل اعتماد اتحادیوں کی تلاش میں، اس مدت کے دوران باہمی اعلیٰ سطح کے دوروں کا سلسلہ جاری رہا۔

1996 میں دستخط کیے گئے دونوں معاہدوں نے اقتصادی اور عسکری شعبوں میں تعلقات کی تیز رفتار ترقی کو ممکن بنایا۔ یہ پہلا آزاد تجارتی معاہدہ تھا جس پر ترکی کو تیسرے ممالک کے ساتھ دستخط کرنا تھے کیونکہ یہ یورپی یونین کی کسٹمز یونین میں شامل تھا۔

اس معاہدے کے بعد باہمی سرمایہ کاری کے فروغ، دہرے ٹیکس سے بچنے کے معاہدے اور اقتصادی تعاون کے معاہدے جیسے کئی معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔

دوسرا اہم معاہدہ ملٹری ٹریننگ اور تکنیکی تعاون سے متعلق فریم ورک معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کی بنیاد پر ان کے درمیان دفاعی صنعت میں تعاون کے 10 سے زائد معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔

دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے فریم ورک کے اندر، اسرائیل نے 54 F-4 لڑاکا طیاروں کی جدید کاری کا بیڑا اٹھایا اور مختلف ٹینڈرز میں حصہ لینے کے قابل ہوا۔

فوجی تعاون کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان ڈیفنس انڈسٹری ورکنگ گروپ اور پولیٹیکل ملٹری ورکنگ گروپ قائم کیا گیا۔

2000 کی دہائی کے آغاز میں شام کے ساتھ ترکی کے تعلقات میں بتدریج بہتری کے اثرات کے ساتھ، اس نے خطے میں عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان جس توازن کی پالیسی پر عمل کرنے کی کوشش کی، اس کی وجہ سے اسرائیل کے حق میں تعلقات کو درمیانی راستے پر دوبارہ ڈال دیا گیا۔

ترکی کی اسرائیل سے دوری کی ایک اور اہم وجہ دوسری انتفاضہ تھی، جو 2000 میں شروع ہوئی تھی اور اس کے نتیجے میں سینکڑوں فلسطینی مارے گئے تھے۔

صدر اردوغان نے بطور وزیراعظم 2005 میں اسرائیل کا دورہ کیا اور 2007 میں فلسطینی صدر محمود عباس اور اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔

2008 میں اسرائیل کی طرف سے فلسطینی علاقوں کے خلاف شروع کیے گئے آپریشن کاسٹ لیڈ سے تعلقات ایک بار پھر کشیدہ ہو گئے۔

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اس وقت بحران میں داخل ہوئے جب سنہ 2010 میں ماوی مرمرہ واقعے میں بین الاقوامی پانیوں میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں نو شہری ہلاک ہو گئے۔

جب تعلقات ایک بار پھر سیکنڈ سیکریٹری کی سطح پر آ گئے تو ترکی نے اسرائیل پر مختلف پابندیاں عائد کرنا شروع کر دیں۔

اس وقت کے وزیراعظم نتن یاہو کی جانب سے 2013 میں اردوغان کو فون کر کے معافی مانگنے کے باوجود فوری طور پر تعلقات بہتر نہیں ہوئے۔

سفیروں کی دوبارہ تقرری 2016 میں ہی ممکن ہوئی۔ تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2017 میں بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور تل ابیب میں سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کے بعد، 2018 میں غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں تقریباً 60 فلسطینیوں کی ہلاکت کے بعد سفیروں کو مرکز میں واپس بلایا گیا تھا۔

حالیہ اقدامات: محتاط رجائیت

یہ سوچنا غلط نہیں ہو گا کہ ترکی 2020 سے خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو ٹھیک کرنے کے دائرہ کار میں اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

اسرائیل میں اقتدار کی تبدیلی اور نتن یاہو کے مستعفی ہونے کی طرح دونوں ملکوں کے تعلقات میں بتدریج بہتری قابل ذکر ہے۔ 

اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ کے والد، اس وقت کے صدر ہیم ہرزوگ کی، 1992 کے دورے کے 30 سال بعد ترکی آمد، اعلیٰ سطحی دوروں اور رابطوں کا آغاز ہے۔

اس کے بعد صدر اردوغان نے 77ویں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حاشیے پر نیویارک میں اسرائیلی وزیراعظم یائر لاپڈ کا استقبال کیا۔ وزارتی سطح پر باہمی دورے بھی ہوئے اور سفیروں کی تقرریاں ہوئیں۔

اگرچہ یہ تمام مثبت اقدامات ہیں لیکن فریقین کو ایک دوسرے پر دوبارہ اعتماد کرنے میں وقت لگے گا۔

تاہم جس طرح 1990 کی دہائی کے اوائل میں ایک نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل کے دوران دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آئے، آج دنیا ایک تبدیلی سے گزر رہی ہے اور مشرق وسطیٰ کا جغرافیہ اس عمل سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔

ابراہیمی معاہدوں سے پیدا ہونے والی مثبت فضا سے عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو ٹھیک کرنا شروع کر دیا۔ ایران ترکی سمیت خطے کے ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات سے بے حد بے چین ہے کیونکہ خطے میں عدم استحکام کو منفی طور پر متاثر کرنے والے سب سے بڑے عوامل میں سے ایک ہے۔

شام میں ایران کی بڑھتی ہوئی موجودگی بھی جامع سیاسی حل کی راہ میں بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ یوکرین کے بحران کے ساتھ توانائی کے بحران نے ایک بار پھر مشرقی بحیرہ روم کی اہمیت کو آشکار کیا۔ لبنان اور اسرائیل کے درمیان سمندری حدود کی حد بندی کا معاہدہ اس تناظر میں ایک اہم قدم ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکہ کی جانب سے EastMed قدرتی گیس پائپ لائن کو ایک مہنگے منصوبے کے طور پر پیش کرنے نے قدرتی گیس کو اسرائیل کے لیوائتھن فیلڈ سے نکالے جانے کے لیے ترکی تک پہنچانے کی راہ ہموار کی، جو صرف 500 کلومیٹر دور ہے۔

اس کے علاوہ، اگرچہ اسرائیلی حکام نے اعلان کیا ہے کہ ترکی کے ساتھ تعلقات کو از سر نو ترقی کرنا یونان اور یونانی قبرصی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کی قیمت پر نہیں آئے گا، لیکن وہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ ترکی اسرائیل کے لیے بہت زیادہ اہم اور سٹریٹجک اتحادی ہے۔

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ایران اس وقت وہ ملک ہے جو آرمینیا۔آذربائیجان کے تعلقات کو معمول پر لانے سے سب سے زیادہ پریشان ہے، اسرائیل اور ترکی کے لیے ممکن ہے کہ وہ آرمینیا-آذربائیجان تعلقات اور دیرپا امن کے قیام کے مقصد کے لیے خطے میں مل کر کام کرتے ہوئے تعمیری کردار ادا کریں۔

ترکی اسرائیل تعلقات بھی ترکی امریکہ تعلقات پر مثبت اثرات مرتب کریں گے۔ اس فریم ورک کے اندر ہی صدر اردوغان کے ستمبر کے آخر میں نیویارک کے دورے کے دوران یہودی تنظیموں کے ساتھ رابطوں کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔

دوسری جانب ترکی کے لیے مسئلہ فلسطین کے حل کا نہ ہونا دونوں ممالک کے تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

اسرائیل کو اس بات کا علم ہے کہ ترکی فلسطین کی حمایت جاری رکھے گا، اس لیے اسرائیلی حکام کی جانب سے کچھ تجاویز ہیں کہ ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے جو کشیدگی میں اضافے کی صورت میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں دراڑ کو روک سکے۔

ترکی کا موقف ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بہتری اسرائیل فلسطین مسئلے کے حل میں معاون ثابت ہو گی۔

اسرائیل کے لیے ترکی کی حماس کی حمایت تعلقات کی زیادہ محتاط ترقی کی وجوہات میں سے ایک ہے۔

اسرائیل میں انتخابات اور ترکی اسرائیل تعلقات کا مستقبل

ترکی اسرائیل تعلقات خطے کے استحکام کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں لیکن مذکورہ بالا مسائل کے ادراک میں برسوں لگ سکتے ہیں۔ اس وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو حکومتوں سے آزاد ریاستی پالیسی کے طور پر استوار کرنا فائدہ مند ہو گا۔

توقع ہے کہ اسرائیل میں ہونے والے انتخابات میں نتن یاہو کی پارٹی پہلے نمبر پر آئے گی، لیکن نتن یاہو، جن کو 120 نشستوں والی کینیسٹ میں 30 کے قریب نشستیں ملنے کی توقع ہے، کو اتحاد بنانے کی ضرورت ہے۔

ناکام ہونے کی صورت میں لاپڈ اس بار حکومت بنانا شروع کر دیں گے۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو دوبارہ انتخابات کروائے جائیں گے۔

لاپڈ نئی حکومت کے قیام تک وزیراعظم کے طور پر کام جاری رکھیں گے، لہٰذا بعد از انتخابات جوڑ توڑ ہفتوں تک جاری رہ سکتی ہے۔

دیکھا جا سکتا ہے کہ انتخابات سے قبل اسرائیل کے اقتصادیات، صنعت اور دفاع کے وزرا کے یکے بعد دیگرے ترکی کے دورے کرنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ انتخابات سے قبل کچھ فیصلے کیے گئے اور ضروری مطالعات کا آغاز کر دیا گیا۔

یہ معلوم ہے کہ نتن یاہو اور صدر اردوغان ایک دوسرے کو زیادہ پسند نہیں کرتے، تاہم نتن یاہو کی ریٹائرمنٹ کے آخری سال میں دنیا، خطہ اور حالات بدل گئے ہیں۔

لہذا اگر نتن یاہو وزیراعظم بنتے ہیں تو ترکی کے ساتھ شروع کیے گئے معمول کے عمل کو آگے بڑھانا ان کے سٹریٹجک مفاد میں ہو گا۔

نوٹ: مصنفہ ایک سابق سفارت کار اور خارجہ پالیسی تجزیہ کار ہیں اور امریکہ میں ترکی کی قونصل جنرل رہ چکی ہیں۔

اس مضمون میں شامل خیالات مصنفہ کے ذاتی ہیں اور ادارتی پالیسی کی عکاسی نہیں کرتے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ