سابق پاکستانی کرکٹر عائشہ جلیل کے لیے عالمی اعزاز

عائشہ کو پاکستان کرکٹ بورڈ کے شعبہ خواتین کرکٹ میں گیم ڈویلپمنٹ اور ٹیم مینیجر کی حیثیت سے کام کرنے پر یو ٹی ایس کالج کی جانب سے سپانسر کیے جانے والے اس باوقار ایوارڈ کے لیے نامزد کیا تھا۔

عائشہ جلیل نے 1997 کے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے دورے کے دوران بولر اور اوپننگ بلے باز کے طور پر پاکستان کی نمائندگی کی (تصویر: یو ٹی ایس کالج/ ٹوئٹر)

پاکستان کی سابق کرکٹر اور یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سڈنی سے ماسٹرز آف سپورٹس مینجمنٹ کی ڈگری حاصل کرنے والی عائشہ جلیل کو انٹرنیشنل ایلمنائی ایوارڈ 2022 دیا گیا ہے۔

عائشہ جلیل کو یہ ایوارڈ 20 اکتوبر کو آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں منعقدہ تقریب میں دیا گیا۔

وہ اپنے بھائیوں کے ہمراہ سٹریٹ کرکٹ کھیلتے ہوئے بڑی ہوئیں۔ 16 سال کی عمر میں، عائشہ کو پاکستان کی پہلی بین الاقوامی کرکٹ ٹیم کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔

انہوں نے 1997 کے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے دورے کے دوران بولر اور اوپننگ بلے باز کے طور پر پاکستان کی نمائندگی کی۔

بعد میں عائشہ جلیل نے کاروباری کریئر کو آگے بڑھانے کے لیے وومن کرکٹ ٹیم کو چھوڑ دیا تھا۔

عائشہ کہتی ہیں کہ ’جس وقت میں کھیل رہی تھی، اس وقت کرکٹ کو کریئر کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا۔ میں نے فنانس میں ایم بی اے کیا اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے لیے کام کرتی رہی۔‘

’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے کچھ ایسا کرنے کا موقع ملے گا جس کا مجھے شوق تھا۔‘

آسٹریلیا میں موقع

کرکٹ سے عائشہ کی محبت مضبوط رہی اور 2009 میں آسٹریلوی حکومت کی سکالرشپ نے عائشہ کو یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی، سڈنی (یو ٹی ایس) میں سپورٹس مینجمنٹ میں ماسٹرز آف مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے سوچا، یہ میرے لیے موقع ہے کہ میں وہ کام کروں جس کا مجھے شوق ہے۔ میں نے سپورٹس مینجمنٹ کا انتخاب اس لیے کیا کہ پاکستان میں ایسا کچھ موجود نہیں تھا۔‘

خواتین کھلاڑیوں کی اگلی نسل کے لیے باعث حوصلہ

آسٹریلیا میں کھیلوں کے پروگرامز اور تعلیم پر مرکوز کریئر کی منصوبہ بندی نے عائشہ کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اپنی نئی مہارت کو اپنے ملک لے جائیں۔

پاکستان میں انہوں نے ابتدائی طور پر آئی ایل اے ڈی نامی ایک منصوبے پر کام کیا جس میں انہوں نے کھیلوں کی مہارت کا نصاب تیار کیا اور اس پر عمل درآمد کیا۔

2015 میں، انہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ میں شمولیت اختیار کی اور نہ صرف بین الاقوامی اور قومی کرکٹ آپریشنز اور ایونٹس پر کام کیا بلکہ نچلی سطح اور جونیئر ترقیاتی پروگراموں کو بھی ڈیزائن اور منظم کیا جو کھیلوں میں خواتین کی اگلی نسل کے لیے متاثر کن ہے۔

کھیلوں میں خواتین کے متعلق دقیانوسی تصورات کو توڑنا

عائشہ جلیل کا موجودہ چیلنج 2023 کے انڈر 19 کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے خواتین کی انڈر 19 ٹیم تیار کرنا ہے۔

عائشہ کو امید ہے کہ وہ پاکستان میں خواتین کی کرکٹ اکیڈمی قائم کریں گی۔ یہ کھیل میں خواتین کے بارے میں دقیانوسی تصورات کو توڑنے کے لیے ان کے ایک طویل مدتی منصوبے کا حصہ ہے۔

عائشہ کہتی ہیں کہ ’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان پروگراموں کے توسط  سے نوجوان لڑکیاں آتی ہیں۔ گذشتہ برسوں کے دوران میں نے یہ دیکھنا شروع کیا کہ والدین اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنی بیٹیوں کو لاتے ہیں کہ انہیں صحیح تربیت ملے، اور وہ دیکھتے ہیں کہ کھیلنے کے علاوہ بھی کھیل میں ایک کیریئر ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’بہت سے والدین اب اپنی بیٹیوں کے خواب پورے کرنے کے لیے ان کو سپورٹ کر رہے ہیں۔‘

ان کے کام کی ستائش

عائشہ کو پاکستان کرکٹ بورڈ کے شعبہ خواتین کرکٹ میں گیم ڈویلپمنٹ اور ٹیم مینیجر کی حیثیت سے کام کرنے پر یو ٹی ایس کالج کی جانب سے سپانسر کیے جانے والے اس باوقار ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔

وہ بین الاقوامی آپریشنز اور ملکی دوروں پر قومی ٹیم مینج کرتی ہیں۔

یو ٹی ایس ایلمنائی ایوارڈز

ان ایوارڈز کے ذریعے یو ٹی ایس کے سابق طالب علموں کی بزنس، آرٹس اینڈ سوشل سائنسز، ڈیزائن، آرکیٹیکچر اینڈ بلڈنگ، انجنیئرنگ اینڈ آئی ٹی، ہیلتھ، لا اور سائنس میں نمایاں کامیابیوں کو سراہا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین