میانوالی: شیر شاہ سوری کے دور کی باولی

میانوالی سے 22 کلومیٹر دور اس باؤلی میں 400 سے زائد سیڑھیاں بنائی گئیں اور اسے شیر شاہ سوری نے تعمیر کروایا تھا۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی میں شیر شاہ سوری دور کی باؤلی آج بھی قائم ہے جس کو اصل حالت میں بحال کرنے کا کام جاری ہے۔

میانوالی کے کئی علاقوں میں سینکڑوں سال پرانی تہذیب، حملہ آوروں اور قبل مسیح کے آثار ملے ہیں۔

ماڑی شہر میں راجہ اشوک کا قلعہ،  شیر شاہ سوری روڈ،  ہندوؤں کے قدیم مکانات اور انگریزوں کی بچھائی گئی ریل کی پٹڑی بھی یہاں موجود ہے۔

سولہویں صدی عیسوی میں افغان سردار فرید خان المعروف شیر شاہ سوری یہاں سے گزرے تو انہوں نے یہاں سڑکیں اور اپنے لشکر میں موجود ہاتھی اور گھوڑوں کے لیے پانی کی باؤلیاں تعمیر کرائیں جن کے نشان اب بھی مختلف علاقوں میں موجود ہیں۔

میانوالی شہر سے 22 کلومیٹر دور ایک قدیمی شہر واں بھچراں موجود ہے جہاں شیر شاہ سوری نے اپنے قیام کے دوران قلیل مدت میں باؤلی تعمیر کرائی۔

اس باؤلی میں 400 سے زائد سیڑھیاں بنائی گئیں اور یہاں سے گھوڑے اور ہاتھی ان سیڑھیوں سے اتر کر اپنی پیاس بجھاتے تھے۔

باؤلی ایک ایسے گہرے کنویں کو کہتے ہیں جس میں پانی کی سطح تک سیڑھیاں بنائی گئی ہوں یا پانی تک رسائی سیڑھیوں کے ذریعے ہو۔

اس دور میں باؤلی کے ارد گرد راہداریاں اور کمرے بنائے گئے جو اس جگہ کو سایہ دار اور ٹھنڈا رکھتے اور اس جگہ گرمی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔

گزرے زمانوں میں امرا اور سردار یہاں آرام و قیام بھی کیا کرتے تھے تاکہ گرمی کا احساس کم ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے گورنمنٹ کالج میانوالی میں تاریخ کے پروفیسر محمد عارف  نے بتایا کہ ’میانوالی کے علاقہ واں بھچراں میں شیر شاہ سوری کی بنائی گئی باؤلی میں اس کنویں پر جو پہلا قبیلہ آباد ہوا اس کا نام بھچر قبیلہ تھا اسی وجہ سے اس شہر کا نام واں بھچراں پڑ گیا۔ واں کے معنی کنواں اور بھچر قبیلے کی مناسبت سے بھچروں کا کنواں یعنی واں بھچراں رکھا گیا۔‘

واں بھچراں کے رہائشی قیصر ٹھیٹھیہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ ہمارا تاریخی کنواں ہے جو فرید خان المعروف شیر شاہ سوری نے سولہویں صدی میں بنایا تھا۔ یہ منفرد نوعیت کا کنواں ہے جو کہ آثار قدیمہ کی لسٹ موجود ہے۔ یہ کنواں بہت خستہ حال ہو گیا تھا۔ محکمہ آثار قدیمہ نے اس کا تخمینہ لگایا اور اس کی بحالی کا بیڑا اٹھایا۔‘

’اس کنویں کی اصل حالت میں  بحالی کا ابھی کام ہو رہا ہے۔ تقریبا 80 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ آثار قدیمہ تقریباً دو کروڑ روپے کی لاگت سے اس کنویں کو بحال کر رہا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ نے کوشش کی ہے کہ اس کا جو مٹیریل ہے اس میں کوئی تبدیلی نہ ہو اور اس کو اپنی اصل شکل میں بحال کیا جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا