میانوالی کا لاچہ جسے بنانے والے اب کم ہی رہ گئے ہیں

لاچہ ایک چادر نما خوش رنگ اور مختلف قسم کا کپڑا ہوتا ہے جسے لوگ اوڑھتے ہیں اور عید اور کسی خصوصی تہوار پر اسے پہنا جاتا ہے۔

میانوالی کے شہر ماڑی میں ہاتھ سے تیار کیے گئے لاچے دنیا بھر میں پسند کیے جاتے ہیں (انڈپینڈنٹ)

صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی میں دریائے سندھ کے کنارے ایک تاریخی گاؤں واقع ہے جہاں کے کاریگر مختلف قسم کی اشیا بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

ماضی میں میانوالی کے شہر ماڑی کو مشہدی لنگی، لاچہ اور کھدر کی اشیا بنانے میں نمایاں مقام حاصل تھا اور اب بھی یہاں مشہور زمانہ لاچہ تیار کیا جاتا ہے جسے دور دور سے لوگ خریدنے آتے ہیں۔

لاچہ ایک چادر نما خوش رنگ اور مختلف قسم کا کپڑا ہوتا ہے جسے لوگ اوڑھتے ہیں اور عید اور کسی خصوصی تہوار پر اسے پہنا جاتا ہے۔

میانوالی کے شہر ماڑی میں ہاتھ سے تیار کیے گئے لاچے دنیا بھر میں پسند کیے جاتے ہیں۔

لاچے کی لمبائی تین گز اور چوڑائی ڈیڑھ گز ہوتی ہے۔ ایک لاچہ تیار ہونے میں دو دن کا وقت لگتا ہے اور یہ انتہائی محنت طلب کام ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماڑی میں تیار ہونے والے لاچے مختلف رنگوں میں دستیاب ہیں جن میں سبز، سفید، سرخ اور کریم کلر شامل ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت کرتے ہوئے لاچہ تیار کرنے والے کاریگر عبدالرحیم نے بتایا کہ دھاگہ اور دیگر سامان خریدنے کے لیے انہیں ملتان اور خوشاب کے علاوہ دیگر دور دراز کے شہروں میں جانا پڑتا ہے۔

ان کے بقول سفری اخراجات، دھاگہ اور دیگر خرچ ملا کر ایک لاچہ 13 سے 14 سو روپے میں پڑتا ہے۔

ماڑی شہر کے لاچے پاکستان کے مختلف علاقوں سمیت عرب امارات میں بھی لوگ بطور ثقافتی تحفہ ساتھ لے جاتے ہیں، جبکہ میانوالی میں رہنے والے لوگ اپنے عزیز و اقارب کو بطور تحفہ یہ لاچہ پیش کرتے ہیں۔

کاریگر عبدالرحیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’مہنگائی کے اس دور میں ہمارے لیے اس کام کو جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔ ہماری آخری نسل ہے جو اس کام کو جاری رکھے ہوئے ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’میری 72 سال عمر ہو گئی اور میں تمام عمر یہی کام کرتا رہا ہوں۔ نئی نسل یہ کام نہیں سیکھ رہی۔ اس کام میں اب کوئی کمائی نہیں رہی اور نہ ہی حکومت اس کام کی طرف توجہ دے رہی، اگر حکومت بلاسود قرضہ دے تو تب اس کام کو جاری رکھا جا سکتا ہے۔‘

عبدالرحیم نے بتایا: ’ہمارا یہ کام مجبوری کے تحت جاری ہے۔ مزدور اس کام کا 450 روپے لیتا ہے جس سے اس کا گزارا اس میں ممکن نہیں ہے۔‘

حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے ماڑی شہر میں یہ قدیم ثقافت دم توڑتی نظر آ رہی ہے۔ کاریگروں کا کہنا ہے کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو ہم اپنا ہنر اور آلات اور اس صنعت کا تمام سامان فروخت کر کے اس فن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان