اسرائیلی سیاست کی انتہائی سمت فلسطینیوں کے لیے حیران کن نہیں

بہت سے فلسطینی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے بارے میں رائے نہیں دیتے اور یہ کہہ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ’وہ سب ایک جیسے ہیں۔‘

اسرائیلی سیاست کے ابھرتے ہوئے ستارے ایتمار بن غفیر ہیں جو جیویش پاور پارٹی کے سربراہ ہیں (فائل فوٹو: اے پی)

جب اسرائیلی شہر چار سال میں اپنے پانچویں بار ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لے رہے تھے تو ہم فلسطینیوں کو ایک بار پھر بھلا دیا گیا۔ ہم اس طاقت کو دیکھنے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے جو آئندہ ہماری زندگیوں پر حکمرانی کرے گی۔

مشرقی بیت المقدس، غزہ اور مغربی کنارے کے 50 لاکھ مقبوضہ فلسطینیوں کے لیے حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اس حکومت کے لیے ووٹ ڈالنے کا حق نہیں دیا گیا جو ہماری روزمرہ کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کرتی ہے۔ بہت سے فلسطینی، امیدواروں کے بارے میں رائے نہیں دیتے اور یہ کہہ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ’وہ سب ایک جیسے ہیں۔‘

یہ خیالات قابل فہم ہیں، اس حقیقت کے پیش نظر کہ اسرائیلی حکومت سامراجی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، تاہم اسرائیلی حکومتیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔

فلسطینی شہریوں کے لیے اسرائیلی انتخابات کے دو ممکنہ نتائج تھے: ایک ایسی حکومت جو نسل پرستی کے جابرانہ نظام کو تقویت دینے کا کام جاری رکھے گی یا وہ حکومت جو نوآبادیات کے خلاف منظم تشدد کو فروغ دے گی، یہودی بالا دستی کو معمول بنائے گی اور فلسطینیوں کو ان کے علاقوں سے تیزی سے بے دخل کرے گی۔

ایسا لگتا ہے کہ اسرائیلی ووٹروں نے اپنا انتخاب کر لیا اور دوسری قسم کی حکومت فاتح بن کر ابھری ہے۔

الیکشن سے پہلے کے مہینوں میں حکمران جماعتوں اور حزب اختلاف کی جماعتوں، دونوں نے رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے زوروشور سے مہم چلائی۔ ایک طرف سبکدوش ہونے والے وزیراعظم یائر لاپیڈ اور وزیر دفاع بینی گینٹز نے ’بریک دا ویو‘ کے نام سے فوجی آپریشن کیا جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے انتباہ جاری کیا کہ 2022 مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے لیے ریکارڈ پر موجود ہلاکت خیز ترین سال ہو سکتا ہے اور اکتوبر ہلاکت خیز ترین سال کا ہلاکت خیز ترین مہینہ۔ اسرائیل کے حکمران اتحاد نے اگست میں بھی غزہ کی پٹی پر حملہ کیا اور تین دن میں 49 فلسطینی مارے گئے۔

دوسری جانب اسرائیلی سیاست کے ابھرتے ہوئے ستارے ایتمار بن غفیر ہیں جو جیویش پاور پارٹی کے سربراہ ہیں۔ بن غفیر  انتہا پسند یہودی نظریے کہانزم کے سرگرم کارکن ہیں، جنہوں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کے قاتل باروچ گولڈ سٹین کی تصویر گھر میں لگا رکھی ہے اور جنہوں نے بطور وکیل ان یہودی اسرائیلیوں کا دفاع کیا جن پر دہشت گردی اور نفرت پر مبنی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

ان جرائم میں دوما نامی فلسطینی گاؤں پر حملہ بھی شامل ہے، جس میں دوابشے خاندان کے تین لوگ مارے گئے۔

خود بن غفیر پر آٹھ مرتبہ الزامات لگائے گئے جن میں ’ایک دہشت گرد تنظیم کی حمایت‘ بھی شامل ہے۔ انتخابات سے پہلے انہوں نے بیت المقدس میں فلسطینیوں کے سامنے اپنی پستول لہرائی اور شیخ جراح کے مکینوں کے خلاف تشدد کو ہوا دینے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا۔ اب وہ اسرائیلی سیاست کے بادشاہ گر ہیں۔

بعض اسرائیلی اس الیکشن میں انتہا پسند دائیں بازو کے بظاہر ’اچانک‘ ابھر کر سامنے آنے پر سخت حیرت کا اظہار کر رہے ہیں، تاہم اس کے آثار سالوں سے موجود ہیں اور یہ ان اسرائیلیوں کی غلطی ہے جن کا خیال تھا کہ جس صورت حال میں فلسطینیوں کو منظم طریقے سے دبایا گیا ہے وہ ایسی پیشرفت کے بغیر جاری رہ سکتی ہے۔ آج 70 فیصد یہودی اسرائیلی جن کی عمریں 18 سے 24 سال کے درمیان ہیں، ان کی شناخت ’دائیں بازو‘ کے طور پر ہوتی ہے۔

اسرائیلی سیاست جو انتہائی سمت اختیار کر رہی ہے، اس سے ہم فلسطینیوں کو دھچکا نہیں لگا یا یہ ہمارے لیے حیران کن نہیں ہے۔ یہ سیاسی جبر، ادارہ جاتی تشدد، نسل پرستی اور نسلی تعصب کی شکل میں کئی دہائیوں سے کسی روک ٹوک کے بغیر جاری آباد کاری پر مبنی سامراجیت کا فطری نتیجہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان انتخابات میں اسرائیلی قبضے، فلسطینی حقوق اور آزادی پر توجہ دینے والی جماعتوں کو قطعی طور پر نظر انداز کر دیا گیا (یا وہ بالکل اکھٹی نہیں ہوئیں۔) دریں اثنا اعتدال پسند اور دائیں بازو کی جماعتوں سب نے مل کر مسلسل دائیں بازو کے نظریات اختیار کرنے والے رائے دہندگان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کیا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ مغربی کنارے میں آبادکاری اور ایک غیر جمہوری یہودی ریاست کو استحکام دیا جائے گا۔

کئی دہائیوں سے اسرائیل کے عوامی اداروں اور عدالتوں نے ملک پر حکومت کرنے والے نسل پرستی کے نظام کو قانونی شکل دینے اور اسے معمول بنانے کی کوشش کی ہے۔ اسرائیلی ریاست نے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کی، جنگی جرائم کا ارتکاب کیا اور اسے کھلی چھٹی ملی رہی کیوں کہ امریکہ اور یورپی یونین نے اس کی مالی اور سفارتی مدد کی پیشکش جاری رکھی۔

فلسطینیوں کے ساتھ سیاسی حل تک پہنچنے میں کوئی دلچسپی نہ ہونے کے باعث یہ فطری بات تھی کہ قدیم فسطائی نظریات رکھنے والے اسرائیلی سیاست میں مضبوط ترین کیمپ بن جائیں۔

جو بھی یہ سمجھتا ہے کہ اسرائیل کے انتخابات کے بعد مثبت تبدیلی آسکتی ہے، وہ سراسر غلطی پر ہے۔ یہ باقی دنیا پر منحصر ہے کہ وہ نسلی بالادستی کے گھناؤنے نظریات کو معمول بنانے سے روکے جنہیں ہم اسرائیل میں فروغ پاتا ہوا پاتے ہیں۔ بین الاقوامی برادری کو نسل پرستی کی مالی امداد فوری طور پر بند کر دینی چاہیے کیوں کہ تمام علامات یہ بتاتی ہیں کہ نسل پرستی مزید تشدد کی جانب بڑھ رہی ہے۔

میں نہیں چاہتا کہ نسل پرستی اور نسلی تعصب کے درمیان کسی کے انتخاب کا موقع دیا جائے۔ میں صرف اپنے لوگوں کی آزادی چاہتا ہوں اور یہ کہ ہم اپنے وطن فلسطین میں حقوق کے ساتھ باوقار زندگی گزاریں۔

نوٹ: جلال ابوخاطر بیت المقدس میں مقیم فلسطینی سرکاری ملازم اور مصنف ہیں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ