داسو خودکش حملہ کے ماسٹر مائنڈ کو سزائے موت: ’بٹن خراب‘ فرار

داسو میں دس چینی باشندوں اور چار پاکستانی شہریوں پر خودکش حملے میں ملوث مرکزی ملزمان کو گذشتہ روز (سوموار) ایبٹ آباد کی ایک انسداد دہشت گردی عدالت نے سزائے موت سنا دی۔

داسو، 14 جولائی، 2021: چینی ورکرز کی بس جس پر حملہ کیا گیا، حملے کے بعد کھائی میں گری ہے اور ریسکیو ورکرز امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں (اے ایف پی)

کہتے ہیں کوئی بھی جرم ’پرفیکٹ‘ نہیں ہوتا۔ اس حملے کی تحقیقات کرنے والے پولیس اہلکاروں کے مطابق انہیں شک ہے کہ جب عالمی سطح کا ایک جرم ہو رہا ہو تو ظاہر ہے کہ اس کی منصوبہ بندی بھی عالمی سطح پر ہی کی گئی ہوگی۔

جولائی 2021 میں داسو کے مقام پر پاکستان میں چینی باشندوں پر ہونے والا خودکش حملہ ایسی ہی ایک کارروائی تھی۔ اس حملے نے حکومت کو چکرا کر رکھ دیا تھا۔ اس حملہ میں دس چینی باشندے ہلاک ہوئے تھے۔ دو ایف سی اہلکاروں اور ایک مقامی فراد سمیت مجموعی طور پر تیرہ افراد اس حملے میں جان سے گئے۔

کوہستان کے علاقے داسو میں دس چینی باشندوں اور چار پاکستانی شہریوں پر خودکش حملے میں ملوث مرکزی ملزمان کو گذشتہ روز (سوموار) ایبٹ آباد کی ایک انسداد دہشت گردی عدالت نے سزائے موت سنا دی۔

یہ واقعہ پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات کے لیے اتنا اہم تھا کہ گذشتہ روز دفتر خارجہ نے بھی اس کے حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’معاملے کی فعال تحقیقات، پراسیکیوشن اور فیصلہ پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف عزم کی عکاسی کرتا ہے اور پاکستان چینی ورکرز اور منصوبوں کی سیکیورٹی کیلئے پر عزم ہیں۔‘

دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’دشمن قوتیں پاک چین تمام موسموں کی سٹریٹجک دوستی اور شراکت داری کو نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔‘

کیس کی تحقیقات کے حوالے سے ڈی آئی جی ہزارہ پولیس ذیشان اصغر نے بتایا کہ پختونخوا پولیس اور حساس اداروں کی محنت رنگ لائی۔ انہوں نے کہا کہ ’پہلی بار تمام تر سائنسی خطوط پر تفتیش اور حساس اداروں کی معلومات کی فراہمی اور تعاون سے خودکش حملہ آور کے ساتھ ساتھ اصل ماسٹر مائینڈز تک کو نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ انصاف کے کٹہرے میں ملوث افراد کوسب سے بڑی سزا یعنی سزائے موت سنا دی گئی۔‘

گو کہ چینی باشندوں پر ماضی میں بھی حملے ہوئے ہیں لیکن اس حملے میں چینی باشندوں کا جانی نقصان زیادہ ہوا۔دوردراز اس پہاڑی علاقے سے اطلاعات بھی بمشکل ہی نکلتی ہیں اور پھر اس میں تو اور بھی مشکل رہی۔ اس واقعہ پر چین نے بھی شدید ردعمل کا اظہار کیا اور اپنی خصوصی ٹیمیں بھیجیں۔ تاہم حکومت پاکستان نے ان کو یقین دہانی کرائی کہ اصل ملزمان تک ضرور پہنچا جائے گا اور ان کے خلاف ٹھوس بنیادوں پر کارروائی کی جائے گی۔ پاکستانی انٹیلی جنس اداروں اور پختونخوا پولیس کے لیے یہ ایک عالمی چیلنج بن چکا تھا۔

حساس اداروں نے تفتیش کا آغاز جائے وقوعہ سے ہی کیا۔ 14جولائی 2021 کو جیسے ہی حملے کے بعد حساس اداروں کے اہلکار وہاں پہنچے تو جائے وقوعہ سے خون کے دھبوں سے لے کر گاڑی اور کپڑوں کے ٹکڑوں کو محفوظ کیا گیا۔

سب سے پہلے تو بارود کے ذرات، دھماکے کی شدت اور گاڑیوں کے پرزوں سے جانچا گیا کہ دھماکہ ہنڈا موٹر کار کے ذریعہ کیا گیا۔ اس کے ٹکڑوں اور جائے وقوعہ پر انسانی جسم کے اعضا سے معلوم ہوا کہ دھماکہ خودکش تھا۔

اس حملے کی تحقیقات کرنے والے ایک اعلی پولیس افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ’ڈیم جس شاہراہ پر قائم ہے وہاں کی سی سی ٹی وی فوٹیج جمع کی گئی۔ اس فوٹیج میں اسی ہنڈا کار کا پیچھا کیا گیا۔ بالآخر ایک جگہ پر اس گاڑی کے فرنٹ نمبر پلیٹ تک حساس ادارے پہنچے۔

’جائے وقوعہ سے اکھٹے کیے گئے کار کے ٹکڑوں اور فوٹیج میں ایک سرخ رنگ کا سٹکر ملا۔ سٹکر پر کسی شوروم کا ذکر تھا۔ لیکن وہ سٹکر واضح نظر نہیں آ رہا تھا۔ اسی سٹکر میں کہانی پھنسی ہوئی تھی۔‘

تاہم یہ مشکل جدید ٹیکنالوجی نے حل کر دی۔ جب سٹکر واضح ہوا تو اس کے اوپر لکھا تھا ’چمن 2 شوروم‘۔ بس پھر کیا تھا بلوچستان سے لے کر گلگت تک چمن 2 شو روم کی تلاش شروع ہوئی۔ یہ تلاش ملاکنڈ چکدرہ پر اس وقت ختم ہوئی جب وہاں یہ شوروم ملا۔

اس شوروم کے مالکان کو گاڑی کی تصاویر دکھائی گئیں جو فارنزک کی ٹیم نے انتہائی محنت سے تیار کی تھیں۔ شو روم کے ریکارڈ کو جانچہ گیا تو معلوم ہوا کہ سید محمد ولد خائیستہ محمد نے یہ گاڑی شو روم سے لی تھی۔

اس کے حلیے اور موبائل نمبر سے سید محمد کی تلاش شروع ہوئی تو جلد ہی حساس اداروں کو معلوم ہوا کہ اس کا اصل نام تو محمد حسین ولد عبدالرحیم ہے اور وہ سوات تحصیل مٹہ کے علاقہ سپین پوڑہ کا رہائشی ہے۔

محمد حسین کو سی ٹی ڈی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس حساس ادارے کے اہلکاروں نے اٹھایا اور نامعلوم مقام پر اس سے تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ گاڑی کی فراہمی اور رابطوں میں اس کے ساتھ محمد ایاز اور فضل ہادی بھی تھے، ان کو بھی ٹریس کرکے گرفتار کیا گیا۔

پولیس تفتیش کے مطابق ان تینوں سے الگ الگ پوچھ گچھ کی گئی تو واقعے کی تصویر بننی شروع ہو گئی۔ اس کے بعد ان کی کہانیوں کو جوڑا گیا۔ معلوم ہوا کہ اس ایک واقعہ کے پیچھے آٹھ اور کردار بھی تھے۔ ان کو حراست میں لینے کے لیے الگ الگ ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ دیگر ملزمان میں محب اللہ عرف عرفان، میاں سید محمد، شوکت علی، عبدالوہاب، عمرزادہ، انور علی، خالد اور طارق عرف ’بٹن خراب‘ شامل تھے۔

پولیس حکام کے مطابق ان میں سے مرکزی ملزمان تو گرفتار کر لیے گئے لیکن طارق بٹن خراب تاحال مفرور ہے۔ دوران تفتیش معلوم ہوا کہ محمد حسین ہی اس حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ اس حملے کے لیے گاڑی سات ماہ پہلے جنوری 2021 کو ہی خریدی گئی تھی اور محمد حسین نے اپنے پاس رکھی تھی۔

دوسری جانب بارود اور حملہ آور کی تیاری طارق عرف بٹن خراب کا کام تھا۔ طارق کو بٹن خراب دو وجہ سے کہا جاتا تھا۔ ایک تو وہ ایک آنکھ سے بھینگا تھا اور مقامی ذرائع کے مطابق ایک بار پہلے اس نے ایک خودکش تیار کیا تھا جس کا بٹن وقت پر کام نہیں کر پایا اس دن سے وہ بٹن خراب کے نام سے معروف ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سات جولائی کو وہ خودکش حملہ آور خالد عرف شیخ کو لے کر محمد حسین کے پاس پہنچا۔ خود کش اور بارودی مواد فٹ کرنے کے بعد طارق عرف بٹن خراب واپس افغانستان روانہ ہوا جب کہ باقی افراد نے حملے کی منصوبہ بندی کو آخری شکل دینا شروع کردی۔

تحقیقات کے مطابق ٹھیک ایک ہفتے بعد 14 جولائی کو خالد بارود سے بھری گاڑی لے کر داسو میں چینی انجنیئرز اور مقامی افراد کو لے جانے والی بس سے ٹکرانے میں کامیاب ہوا۔ اس بار بٹن خراب کا بٹن کام کر گیا۔

تمام شواہد، بیانات اور ملزمان کو لے کر نو نومبر 2021 کو سی ٹی ڈی پولیس ہزارہ نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئی۔ ایک ہی سال میں عدالت نے ملوث ملزمان محمد حسین ولد عبدالرحیم کو اس مقدمے کے مختلف دفعات میں ملوث پاتے ہوئے 13 بار سزائے موت، 15 لاکھ روپے جرمانہ، 10 سال قید بامشقت (32 بار)، دو سال قید بامشقت بمعہ 10 لاکھ روپے جرمانہ، 18 سال قید بامشقت (سات بار)، 18 ماہ قید بامشقت کی سزا سنائی۔

محمد ایاز عرف جانباز ولد صوبیدار خان کو 13 بار سزائے موت اور 15 لاکھ روپے جرمانہ، 10 سال قید بامشقت (32 بار)، دو سال قید بامشقت بمعہ 10 لاکھ روپے جرمانہ، 18 ماہ قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان