آرمی ایکٹ میں کیا ترامیم ہو سکتی ہیں؟

وزارت قانون کے اعلی حکام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آرمی ایکٹ 1952 میں مجوزہ ترامیم وفاقی حکومت سے متعلق ہوں گی۔

پاکستان فوج کے کیڈٹ 25 دسمبر، 2015 کو قائد اعظم کے مزار پر گارڈ آف آنر میں حصہ لیتے ہوئے (اے ایف پی)

پاکستان میں فوج کے نئے سربراہ کی تعیناتی کا موضوع  گذشتہ چند روز سے بحث کا محور بنا ہوا ہے۔

یہ مباحثے ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب وزیر اعظم شہباز شریف نے فوج کے سب سے بڑے عہدے پر تقرری کا فیصلہ کرنا ہے۔

اگرچہ پاکستان فوج کے سربراہ کی تعیناتی پہلی مرتبہ نہیں ہو رہی۔

تاہم اس موضوع پر مختلف حلقوں کی بیان بازیاں اور سیاسی حریفوں کے ایک دوسرے پر اس عہدے کو متنازع بنانے سے متعلق الزامات کا لگایا جانا نئی روایات ہیں۔

ایک طرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپنا ’سیاسی بیانیہ آرمی چیف کی تعیناتی سے منسلک‘ کرنے کا تاثر دے رہی ہے، تو دوسری جانب وفاق میں موجود اتحادیوں کی حکومت اسے ’آئینی اور قانونی حق‘ قرار دیتی ہے۔

نومبر آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے اہم ہے، جس کی تصدیق چند روز قبل وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ انٹرویو میں یہ کہتے ہوئے کی: ’آرمی چیف کی تقرری کا عمل 18 نومبر سے شروع ہو رہا ہے۔‘

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار متعدد بار موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے 29 نومبر، 2022 کو سبکدوش ہونے سے متعلق یقین دہانی کروا چکے ہیں۔ 

تاہم میجر جنرل بابر کے بیانات کے باوجود موجودہ چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق خبریں گردش کر رہی ہیں۔

پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے 27 اکتوبر، 2022 کو ڈی جی آئی ایس پی آر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں ’سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے موجودہ آرمی چیف کو غیر معینہ مدت تک توسیع کی پیشکش قبول نہ کیے جانے‘ کا ذکر کیا تھا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے آرمی ایکٹ میں مبینہ ترمیم پر مشاورت سے متعلق بھی خبریں رپورٹ ہو رہی ہیں، جن میں مذکورہ قانون کے سیکشن 176 اے میں ’تعیناتی‘ کے لفط کو ’برقرار‘ سے ممکنہ طور پر تبدیل کیا جا رہا ہے۔

ترمیم شدہ قانون میں کوئی تبدیلی لائی جا رہی ہے؟

وزارت قانون کے اعلیٰ حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آرمی ایکٹ 1952 میں ترامیم کی جا رہی ہیں، جو وفاقی حکومت سے متعلق ہوں گی۔

انہوں نے وضاحت کی کہ لفظ ’تعیناتی‘ کو ’برقرار‘ میں تبدیل کرنے سے متعلق کوئی ترمیم نہیں کی جا رہی۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے ٹوئٹر پر بیان میں کہا: ’میڈیا پر آرمی ایکٹ میں ترمیم سے متعلق چلنے والی خبریں غیر ضروری ہیں، حکومت آرمی ایکٹ میں کسی بڑی تبدیلی پر غور نہیں کر رہی، سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی متعلقہ شقوں پر نظر ثانی کا حکم دیا تھا، جس پر مناسب وقت عمل درآمد کیا جائے گا۔‘

وزارت قانون کے اعلیٰ عہدے دار کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے حکومت کو جن شقوں پر نظر ثانی کا کہا تھا ان پر پہلے ہی کام کیا جا چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’آرمی ایکٹ میں ترمیم سے متعلق اب ایسی کوئی چیز نہیں جو عدالت عظمی کی جانب سے کہی گئی ہو اور حکومت نے نہ کی ہو۔‘

پی ٹی آئی کے دور حکومت کے دوران جنرل قمر جاوید باجوہ کو ان کی مدت ملازمت ختم ہونے پر تین سال کی توسیع دی گئی تھی۔

سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی کون سی شقوں پر نظرثانی کا کہا تھا؟

سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق 43 صفحوں پر مشتمل فیصلہ جاری کیا تھا جس میں حکومت کو مستقبل میں یہ معاملہ پارلیمان کے سپرد کرنے کا حکم تھا۔

عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا تھا: ’اس بات کو ٹھیک سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف کو فی الحال چھ ماہ کی توسیع دی جائے، نئی قانون سازی مدت ملازمت میں توسیع اور دیگر معاملات کا تعین کرے گی۔‘

فیصلے کے مطابق اگر یہ قانون نہ بن سکا تو چھ ماہ میں جنرل قمر جاوید باجوہ سبکدوش ہو جائیں گے، اور اس وقت میں فیصلہ نہ ہو سکا تو صدر مملکت نیا آرمی چیف مقرر کریں گے۔

’آرمی ایکٹ میں موجود سقم آرمی ایکٹ کے لوازمات کو پورا نہیں کرتا۔ صدر کو تعیناتی آرٹیکل 243 کی شق چار کے تحت کرنا ہوتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ قانون بنانا پارلیمان، عمل درآمد کروانا انتظامیہ اور تشریح کرنا عدلیہ کا کام ہے۔

حکومت مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے بے ضابطہ نہیں چھوڑے گی۔

دوسری جانب سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے طریقہ کار کو عدالت میں چیلنج کرنے سے متعلق درخواست دینے والے ریاض حنیف راہی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’خواجہ آصف کا ٹویٹ غلط فہمی پر مبنی ہے اور یہ توہین عدالت کے مترادف ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے اس قسم کا کوئی حکم نہیں دیا۔‘

پاکستانی فوج میں اہم عہدے پر رہنے والے ایک ریٹائرڈ افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر لفظ ’تعینات‘کو ’برقرار‘ سے تبدیل کیا بھی جاتا ہے تو اس سے موجودہ آرمی چیف کو فائدہ نہیں ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا فائدہ جنرل عاصم منیر کو ہو سکتا ہے تاکہ وہ آرمی چیف کی دوڑ میں شامل رہ سکیں۔‘

فوج کے سابق سینیئر افسر کا کہنا تھا: ’یہ عمل پانچ چھ روز سے دو ماہ تک کے لیے کیا جا سکتا ہے، کیونکہ وہ (عاصم منیر) موجودہ آرمی چیف کے ریٹائر ہونے سے قبل ریٹائر ہو جائیں گے۔

’اگر یہ کیا جاتا ہے تو قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے کیا جائے گا۔

’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جنرل عاصم منیر جو چئیرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی بنا دیا جائے تاکہ وہ باقی تقرریاں کر سکیں، لیکن آخری فیصلہ وزیر اعظم کا ہی ہو گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان