ایران میں حکام نے چار افراد کو اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں سزائے موت دے دی۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے ان افراد کی شناخت حسین اردوخانزادے، شاہین ایمانی محمود آبادی، میلاد اشرفی اور منوچہر شاہ بندی کے ناموں سے کی ہے۔
ان افراد کو اتوار کو ایران کے طاقتور پاسدراران انقلاب کے اس علان کے بعد سزائے موت دی گئی جس میں انہوں نے اسرائیلی ایجنسی سے منسلک نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے افراد کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق دیگر تین افراد کو بھی پانچ سے دس سال کی قید کی سزا سنائی گئی ہے تاہم ان افراد کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔
ان افراد کو جون میں گرفتار کر کے سزائے موت سنائی گئی تھی۔ ان پر ’اسرائیل سے انٹیلی جنس معاونت‘ کا الزام تھا۔
رپورٹ کے مطاق یہ افراد مجرمانہ ریکارڈ کے حامل تھے اور انہوں نے ملک کی سکیورٹی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ارنا کا کہنا ہے کہ موساد کے اس نیٹ ورک کے ارکان نے نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اور کئی افراد کو اغوا کر کے ان کے تفتیش کی تھی۔
مزید کہا گیا کہ یہ مبینہ جاسوس موساد سے اسلحہ اور کرپٹو کرنسی کی شکل میں رقوم بھی وصول کرتے رہے۔
تاہم ایرانی حکام نے ان جرائم کے کوئی شواہد فراہم نہیں کیے۔
روایتی حریف ایران اور اسرائیل ایک دوسرے پر جاسوسی کے الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔
ایران میں دوسرے ممالک بشمول امریکہ اور اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے میں الزام میں گرفتاریاں عام ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ایران نے 2021 میں کم سے کم 314 افراد کو سزائے موت دی تھی، یہ تعداد مشرق وسطیٰ کی تمام ریاستوں میں دی جانے والے سزائے موت کے نصف سے زائد تھی۔
جولائی میں ایران نے کہا تھا کہ اس نے موساد سے منسلک ایک گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد کو گرفتار کیا ہے جو ملک میں مغربی سرحد سے داخل ہوئے تھے۔
جنوری میں اسرائیل کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس نے ایران کے لیے سوشل میڈیا کے ذریعے بھرتی کی جانے والی اسرائیلی خواتین کے ایک گروہ کا خاتمہ کر دیا ہے جنہیں حسات مقامات کی تصاویر بنانے، انٹیلی معلومات اکھٹی کرنے اور اپنے بیٹوں کو اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس میں شمولیت کی ترغیب دینے کے لیے بھرتی کیا گیا تھا۔
اس خبر میں ایجنسیز کی اضافی رپورٹنگ شامل ہے۔
© The Independent