ایران، اسرائیل کے درمیان براہ راست جنگ کا آغاز؟

ایرانی حکومت کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے ایران اور اسرائیل پراکسی جنگوں کی سرحد عبور کر کے براہ راست جنگ میں داخل ہوگئے ہیں۔

ایران میں اسرائیلی پرچم والے جوتوں کے ساتھ پریڈ (اے ایف پی)

ایران اور اسرائیل، دو ممالک جن میں ثقافتی اور تاریخی اعتبار سے بہت کچھ مشترک ہے اور جو ایک خاص جغرافیے میں واقع ہیں، فطری طور پر ایک دوسرے کے بہترین دوست اور حلیف بن سکتے تھے، لیکن آج وہ ایک دوسرے کے سب سے بڑے دشمنوں میں شامل ہیں اور پورا خطہ اس سے متاثر ہے۔ انہوں نے بےمثال دشمنی اور تناؤ ڈال دیا ہے۔

اس وسیع اور مہنگے ایٹمی پروگرام نے غربت اور سلامتی کے خطرات اور بین الاقوامی تنہائی اور تباہ کن پابندیوں کے سوا ایرانی عوام کے لیے کچھ نہیں کیا، وہ آج ایران اور دنیا کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔

لاکھوں ایرانیوں کو جنہیں حکومت نے نظریاتی فوج کے ذریعہ یرغمال بنا رکھا ہے۔ ان کی رائے مانگنے یا پوچھے بغیر ان کو ایسی حکومت کی لاعلمی اور انتہا پسندی کا مشاہدہ کرنا ہوگا جس کے پاس ایک نظام کی بقا کچھ بھی نہیں ہے۔

اگرچہ حکومت کا نئی نسل کے سینٹری فیوجز متعارف کروانے اور اربوں ڈالر کے جوہری پروگرام کو تیز کرنے کی وجہ سے خیال تھا کہ پیدا ہونے والی عالمی برادری کی تشویش امریکہ کو 2015 کے جوہری معاہدے پر واپس لے جائے گی، لیکن نطنز میں تخریب کاری نے اس منصوبے کی فضلیت کو ظاہر کیا ہے۔

اسرائیل نے حملے کی براہ راست ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، لیکن کون نہیں جانتا ہے کہ اسرائیلی حکومت ایران کے جوہری پروگرام کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہے اور بار بار کہہ چکی ہے کہ وہ اس خطرے کا مقابلہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں چھوڑے گی۔

ایران اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے وقت کو مختصر کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ اس کی اشتعال انگیز کارروائیاں ویانا میں حالیہ مذاکرات میں نتائج پر پہنچنے کے وقت کو مختصر کر دیں گی۔

مذاکرات میں مغرب کا مقابلہ کرنے میں حکومت کا آلہ جوہری معاہدے کی خلاف ورزی اور افزودگی کی سطح کو بلند کرنا تھا، جو دو دھماکوں اور پھر نطنز کے افزودگی مرکز میں لگنے والی آگ نے ظاہر کیا کہ یہ میکانزم موثر نہیں ہے۔

ایرانی حکومت کی وجہ سے ایران اور اسرائیل پراکسی جنگوں کی سرحد عبور کر کے براہ راست جنگ میں داخل ہوگئے ہیں۔

اسرائیلی تجارتی جہاز ہیلیوس رے پر انقلابی گارڈز نے 26 فروری کو حملہ کیا تھا۔ اسرائیلی دفاعی عہدیداروں نے بتایا کہ یہ حملہ بحری جہاز شکن میزائل اور ہیلیوس رے سے چپکائی بارودی سرنگ کے ذریعہ کیا گیا۔

گذشتہ اتوار کو بھی اسی طرح کے واقعے میں نطنز کی بجلی تقسیم کرنے والا نیٹ ورک خراب ہوگیا تھا۔

لیکن اسرائیلیوں نے ہیلیوس رے کی جوابی کارروائی بحیرہ احمر میں ساوائے جہاز پر بارودی سرنگیں لگا کر کی اس وقت جب ایران - پی 5 + 1 جوہری مذاکرات کا آغاز ویانا میں ہوا۔

اسرائیل کے عوام ایران کو اپنے اور اپنے ملک کے وجود کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ایرانی حکومت کے اہلکار بار بار براہ راست اسرائیل پر حملہ کرنے اور تباہ کرنے کی دھمکی دیتے رہے ہیں۔

لیکن دوسری طرف ، ایران میں لوگ جوہری پروگرام سے متعلق حکومت کی پالیسی سے متاثر ہوئے ہیں اور وہ حکومت کی پالیسیوں کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔

ایرانی عوام کو حکومت نے اپنے جوہری پروگرام پر بہت زیادہ اخراجات کے بارے میں صحیح طور پر آگاہ نہیں کیا ہے، اخراجات کی مقدار کو بھی مناسب طور پر واضح نہیں کیا گیا ہے اور اس بارے میں بھی کوئی وضاحت نہیں دی جا رہی ہے کہ افزودگی 20 فیصد سے زیادہ کیوں ہے اور اس کے پاس جدید سینٹر فیوجز کیوں ہیں۔

ایران کے جوہری پروگرام کی موجودہ حالت اس کے پرامن رہنے کے اپنے دعوے سے متصادم ہے اور اس نے خطے اور دنیا کو مزید تشویش سے دوچار کر دیا ہے۔

محسن فخری زادے کے قتل کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں دی گئی ہے۔ انہیں کس طرح اور کس طریقے سے مارا گیا اور ایران کے فوجی جوہری پروگرام میں ان کا کیا کردار تھا؟

نطنز جوہری مرکز میں ہونے والا دھماکہ دھماکہ خیز مواد یا سائبر آپریشن اور ماہرین کی تحقیق کے نتیجے میں کیا بتاتا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب ایرانی حکومت اتنی نچلی سطح پر واضح معلومات فراہم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے تو ایرانی عوام اس کا تعین کیسے کرسکتے ہیں کہ کیا ہوا؟

حقیقت یہ ہے کہ ملک کے عوام جو کچھ ہوا ہے اس سے لاتعلق ہیں جو حکومت اور مغرب کے مابین موجود اختلافات سے کہیں زیادہ بڑی غلطی ظاہر کرتی ہے۔ نہ تو حکومت کے بنیادی پروگرام کا کوئی دفاع کرنے والا ہے اور نہ ہی مغرب کے ساتھ مذاکرات لوگوں کے لیے دلچسپی رکھتے ہیں۔

لیکن جس چیز کو دھیان میں رکھنا چاہیے وہ اس ملک کی قومی سلامتی کا خطرہ ہے، جو اسرائیل اور اس کے اہم اتحادی امریکہ کے ساتھ محاذ آرائی ایران، اس کے عوام اور خطے کے لیے ناقابل تلافی نقصان ثابت ہو سکتا ہے۔

اسرائیل میں امریکی وزیر دفاع کی آمد سے وہ ایرانی نظام اور اس کے جوہری پروگرام کے بارے میں جو نئے فیصلے کریں گے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ نئے امریکی صدر کے مقرر کردہ گروپ سے مذاکرات اور ان سے خفیہ بات چیت اس امید پر ہے کہ وہ اسرائیل اور خطے کے ممالک کو نظرانداز کرسکیں گے۔ یہ محض ایک خواب ہے۔

امریکی مذاکرات کار وزیر خارجہ جواد ظریف کے پرانے دوست ہو سکتے ہیں، یا چند ایرانی نژاد امریکی جن سے کبھی کبھی مشاورت کی گئی ہے جو امریکی حکومت میں اپنے اثر و رسوخ بڑھا کر امریکہ کے ساتھ فوجی مذاکرات کے آغاز کی پرفریب امیدیں پیدا کرسکتے ہیں، لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔

سچ یہ ہے کہ جو بائیڈن کو پابندیاں ختم کرنے کے لیے کانگرس کی منظوری لینا ہوگی اور اس کے لیے ایران کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں طے شدہ شرائط پر واپس آنے اور خطے میں اس کے میزائل پروگرام اور مداخلتوں پر تبادلہ خیال کرنا ہوگا۔

دوسری طرف، یہ خطے اور اسرائیل کے ممالک کے مابین مذاکرات ہیں جو بائیڈن کے مذاکرات کاروں کو ایران کے لیے حالات پیدا کیے بغیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں واپس جانے سے روکتے ہیں۔

اس طرح اگر ایران اپنے موقف پر اصرار کرتا رہا تو ویانا مذاکرات بے نتیجہ ہوں گے اور ایران اور اسرائیل ایک دوسرے کے ساتھ معاملات زیادہ براہ راست طریقے سے طے کرنے کی کوشش کریں گے۔

یہ تحریر پہلے انڈپینڈنٹ فارسی پر شائع ہوئی۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ