’شاید یہ میری آخری رومینٹک فلم ہو‘: رنبیر کپور سے ملاقات

جب اعلان ہوا کہ رنبیر کپور آتے ہیں تو کیا غدر مچا ہے بھئی! سب سیٹوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ جدھر سے ہم آئے تھےعین وہیں سے ٹھیک والا وارم ویلکم لیتے ہوئے آہستہ آہستہ رنبیر کپور سٹیج کی طرف بڑھ رہے تھے۔

سات دسمبر 2022 کی اس تصویر میں بالی وڈ اداکار رنبیر کپور سعودی عرب کے شہر جدہ میں جاری ریڈ سی فلم فیسٹیول میں سیشن کے لیے آتے ہوئے (اے ایف پی)

سعودی عرب کے شہر جدہ میں جاری ’ریڈ سی فلم فیسٹیول‘ میں بہت سے اداکار آئے اور گئے لیکن جو انٹری بالی وڈ اداکار رنبیر کپور کی تھی، ویسا رسپانس شاید ہی کسی اور کو ملا ہو۔

بالی وڈ کنگ شاہ رخ خان جب آئے تھے تو وہ افتتاحی تقریب تھی، عام لوگوں کو اتنا وقت نہیں مل سکا کہ بات چیت کھل کر ہوتی یا کچھ بھی کہا سنا جاتا۔

لیکن جب اعلان ہوا کہ رنبیر کپور آتے ہیں تو کیا غدر مچا ہے بھئی! سب سیٹوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ جدھر سے ہم آئے تھےعین وہیں سے بالکل عوام کے بیچ سے گزرتے، لوگوں سے ہاتھ ملاتے، کھڑے ہو کر تصویریں بنواتے رنبیر کپور آہستہ آہستہ نیچے اترے اور سیشن کے لیے مخصوص کرسی پر بیٹھ گئے۔

باہر ایک جم غفیر تھا۔ کئی لڑکیاں رو رہی تھیں کہ ان کے پاس ٹکٹ نہیں تھا اور کچھ لیٹ ہوئیں تو ان کو داخلہ نہیں مل سکا۔ یہ سب کچھ اندر بیٹھی ہوئی مقامی خواتین آپس میں بات کر رہی تھیں اور تھوڑا بہت اپنے کانوں میں بھی پڑ رہا تھا۔

اس ’بھرپور ویلکم‘ کے حساب سے اداکار کو فل نک چڑھا ہونا چاہیے تھا یا کم از کم پندرہ بیس باڈی گارڈوں کا حصار ہوتا لیکن نہیں، یہ شریف آدمی کرسی پر بیٹھا تو انتہائی ہمبل پنے کا شکار معلوم ہوا۔

کوئی آواز دے تو اسے برابر رسپانس، کوئی نام لے تو وہاں دیکھے، کوئی پکارے تو اس کی طرف آنکھوں میں دیکھ کے مسکراہٹ اچھالے اور کوئی سوال کرے تو جواب سے پہلے اس کا نام پوچھے اور بعد میں ادب سے ٹھیک نام لے کر بہت فرینک انداز میں جواب دے۔

یہ سب کچھ مجھے فلمی ستاروں جیسا معاملہ نئیں لگا پتہ نہیں کیوں! یا تو پیڈیگری ہے کہ چار پشت سے اسی دشت کی سیاحی میں ہیں یا پھر خود رنبیر کپور کی طبیعت ایسی ہے۔ باقاعدہ شرمیلے پن کی طرف مائل مزاج والا ایک خوبصورت لڑکا!

بیٹھنے کے بعد گفتگو شروع ہوئی، سوال جواب ہوئے، ایک چیز جو مجھے گڑبڑ لگی وہ یہ کہ راج کپور کے حوالے سے پہلے رنبیر کپور نے کہا کہ انہیں بطور اداکار نہیں بلکہ راج کپور بطور ڈائریکٹر پسند ہیں۔

بعد میں کہیں سامعین سے کوئی سوال آیا پسندیدہ اداکار کے بارے میں تو انہوں نے فوراً راج کپور کا نام لیا۔ سمجھ لیں کہ برگد کی چھاؤں تلے اگنے والا جوان درخت پریشان ہے کہ آباواجداد کو کس کھاتے میں رکھا جائے۔ ذاتی طور پر فقیر کو بھی راج کپور ہدایت ہی کاری میں پسند لگتے ہیں، باقی اللہ جانے۔

سیشن میں وہی گفتگو ہوئی جو پہلے سے تیار سوال ہوتے ہیں، فی البدیہہ پن نہیں تھا اور اس کی ضرورت بھی کیا تھی، لوگ تو دیوانہ وار ایک جھلک بس رنبیر کپور کو دیکھنے آئے تھے۔

ہاں کام کی بات یہ پتہ لگی کہ ساری دنیا جن کی فین ہے وہ صاحب خود میسی کے فین ہیں اور ڈائی ہارڈ فٹ بال لور ہیں۔

بمشکل آدھ گھنٹے میں سیشن تمام ہوا اور اگلے بیس پچیس منٹ صرف تھیٹر میں آنے والے لوگوں کے لیے مخصوص تھے۔

ایک باڈی بلڈر ٹائپ سعودی نوجوان کھڑے ہوئے، تعارف کروایا تو علم ہوا کہ مقامی طور پر اپنے کسی کردار کی وجہ سے ’گرو‘ کہلاتے ہیں اور مشہور اداکار ہیں۔ انہوں نے رنبیر کو سعودی عرب میں خوش آمدید کہا اور بتایا کہ بالی وڈ کی ساری کاسٹ میں سے جو بھی آیا، سب سے زیادہ خوشی انہیں رنبیر کے آنے کی ہے۔

ایک سعودی خاتون کھڑی ہوئیں اور پوچھا کہ اگر آپ اداکار نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟ جواب آیا: ’سٹرگلنگ ایکٹر‘ (اداکار بننے کی جدوجہد میں مصروف انسان)۔ اس بے ساختہ جواب پر اچھے قہقہے بلند ہوئے۔

اتنی دیر میں بچہ کھڑا ہوا جس کا نام ’مانس‘ تھا۔ مانس نے ’کاجل کی سیاہی سے‘ گانا رنبیر کپور کو ڈیڈیکیٹ کر کے گایا، آواز بالکل سریلی نہیں تھی لیکن گانا ختم ہونے پر رنبیر نے ان کی حوصلہ افزائی کی، جس پہ مانس کے والد بہت زیادہ خوش تھے۔

لوگ سوال پوچھنے کو پہلو بدل رہے تھے، آوازیں لگا رہے تھے لیکن مائیک ظاہری بات ہے کہ ایک تھا۔ جس کے ہاتھ میں آ گیا وہ بادشاہ!

ایک پاکستانی خاتون نے رنبیر کو بیٹی کی مبارکباد دی اور کہا کہ ’راحا‘ بہت پیارا نام ہے، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ آج راحا ایک ماہ کی ہو گئی اور آج میری بیٹی کی ’ماہ گرہ‘ ہے۔

ایک سوال آیا کہ فلمیں کم کیوں آنے لگی ہیں آپ کی، وقفہ کافی لمبا ہو گیا، ایسا کیوں؟ تو رنبیر بولے کہ اس برس دو آئیں گی جن میں سے ایک رومینٹک کامیڈی ہے، نام طے نہیں ہوا لیکن آٹھ مارچ کو آ رہی ہے۔ پھر کہنے لگے کہ ’شاید یہ میری آخری رومینٹک کامیڈی ہو کیوں میں اب عمر میں کافی زیادہ ہوتا جا رہا ہوں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا یہ کہنا تھا کہ لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد نے گونجتی ہوئی آواز میں ’نو‘ کے نعرے لگائے اور کہا کہ یہ ’اَن فیئر‘ ہے، آپ تو ابھی نوجوان ہیں۔ اس پر رنبیر ایک لحظے کو گڑبڑائے یا شرمائے لیکن پھر بات جاری رکھی۔ بالکل سامنے بیٹھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ چہرے پر جو کچھ تھا وہ دو فٹ کے فاصلے سے برابر صاف دکھائی دیتا تھا۔

آخری سوالات میں سے ایک عدنان بشیر خان کا تھا جنہوں نے پہلے معذرت کی کہ اکشے کمار سے میں نے سوال کیا تو لوگوں نے سمجھا کہ میں شاید کوئی شرارت کرنا چاہ رہا تھا حالانکہ میرا سوال پورا نہیں ہوا اور اکشے نے جواب دے دیا تو اثر غلط پڑا۔

وضاحت کے بعد انہوں نے پوچھا کہ رنبیر کپور کیا سعودی عرب میں پاکستانی فلم سازوں کے ساتھ کام کریں گے؟ جس پر فوراً رنبیر کپور نے ’یس‘ کرایا بلکہ انہوں نے تمام پاکستانیوں کو ’لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کامیاب ہونے پر مبارک باد بھی دی۔

اب سیشن ختم ہوا تو الگ قصہ تھا۔ رنبیر کپور کم از کم چالیس پچاس نوجوانوں میں گھرے کھڑے تھے۔ کیا لڑکیاں کیا لڑکے، کیا پاکستانی، انڈین، سعودی، بنگالی، سبھی اس چکر میں تھے کہ ایک سیلفی بن جائے اور یقین کیجیے کہ بیچ رش میں سے بھی رنبیر کپور اڑن چمیاں (فلائنگ کس) اچھال رہے تھے۔

سکیورٹی والے تھوڑے گھبرائے کہ رش سے انہیں نکالیں کیسے لیکن سب کی تسلی کرواتے کرواتے بہرحال تھوڑی کوشش رنبیر نے کی اور کچھ گھیرا گارڈز نے بنایا تو جیسے تیسے وہ رخصت ہو گئے۔

کئی لوگوں کے لیے یہ سیشن یادگار تھا۔ جس نے بولا ہاتھ ملانا ہے، انہوں نے ملایا، جس نے گلے لگنا چاہا یہ لگے اور جس نے کہا کہ میری شریک حیات آپ کی شدید فین ہیں تو باقاعدہ نام لے کر انہوں نے ’ہیلو عظیمہ جی‘ بھی کر دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم