رنگ برنگے پتھروں سے خوبصورت اشکال بنانے والی فنکارہ

شازیہ نواب ماربل کے ٹکڑوں کو مخصوص ترتیب میں ملا کر تحریریں اور اشکال بناتی ہیں اور دوسری خواتین کو یہ فن سکھاتی بھی ہیں۔

شازیہ نواب کے مطابق وہ اپنے کام میں پاکستان میں پائے جانے والے تمام رنگوں کے ماربل پتھر کو استعمال کرتی ہیں (سکرین گریب)

پچی کاری یا موزیئک (mosaic) ایک ایسا فن ہے، جس میں شیشے کے چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے ٹکڑوں کو خاص ترتیب میں رکھ اور جوڑ کر تصویر، عبارت، نام یا کوئی ڈیزائن بنایا جاتا ہے۔

تاہم شیشے کے علاوہ دوسری چیزوں مثلاً پتھر اور لکڑی وغیرہ کے چھوٹے ٹکڑوں سے تصاویر یا تحریر بنانے کے فن کو بھی موزیئک کہا جاتا ہے۔

چترال سے تعلق رکھنے والی شازیہ نواب ایک موزیئک آرٹسٹ ہیں جو شادی کے بعد تعلیم جاری رکھنے کا خواب لیے 2011 میں اسلام آباد آئیں۔

ابتدائی طور پر انہوں نے ایک ادارے میں ریسیپشنسٹ کی ملازمت کی۔

اسی دوران انہیں پتھروں کے ٹکڑوں کے ساتھ موزیئک آرٹ سیکھنے کا موقع ملا اور پھر چند ہی برس میں کامیابوں کی سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے وہ ایک موزیک آرٹسٹ بن گئیں۔

یہ فن سیکھنے کے بعد پہلے ہی شو میں انہیں کامیابی ملی، جب وہ 52 خواتین میں سے منتخب ہو کر ایک موزیئک ٹرینر بنیں۔

مالی حالات خراب ہونے کی وجہ سے ان کی تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا اور انہوں نے اپنا کاروبار شروع کیا۔

پھر آہستہ آہستہ سوشل میڈیا کی مدد سے ان کا کام منظر عام پر آنے لگا۔

وہ اب خواتین کے لیے مثال بن چکی ہیں اور خواتین کو موزیئک آرٹ کی تعلیم دیتی ہیں۔

شازیہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ پتھر کے چھوٹے چھوٹے ضائع شدہ ٹکڑوں کو جوڑ کر ان سے کوئی کارآمد چیز بنانے کو موزیئک آرٹ کہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موزیئک آرٹ کی کئی قسمیں ہیں، جن میں پیپر موزیئک، گلاس موزیئک اور ووڈ موزیئک شامل ہیں۔

وہ اپنے کام میں پاکستان میں پائے جانے والے تمام رنگوں کے ماربل پتھر کو استعمال کرتی ہیں۔

شازیہ کے مطابق ابتدا میں گھر والوں نے انہیں سپورٹ نہیں کیا لیکن انہوں نے بھی کسی نے مدد نہیں مانگی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’میں مختلف ماربل فیکٹریز میں جا کر ان کو کہتی کہ میں ماریل کے ٹکروں سے آرٹ ورک کر سکتی ہوں۔

’اگر آپ کو اس طرح کے آرڈر موصول ہوں تو میں یہ کام آپ کے لیے کروں گی۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ مختلف ٹائلز فیکٹری کے قریب جا کر نالوں سے  سکرپ اکٹھا کرتی تھیں کیونکہ فیکٹریوں والے اپنے سکرپ کو نالوں میں پھینکتے تھے۔

’نالے کے آس پاس  لوگ مجھے عجیب نظروں سے دیکھتے تھے کہ پتہ نہیں یہ لڑکی یہاں کیا کر رہی ہے اور کیا اٹھا کے لے جارہی ہے۔ ‘

شازیہ کے مطاب جب فیکٹری والوں کو پتہ چلا کہ وہ سکریپ کا سامان لے جاتی ہیں تو انہوں نے پیسوں کا مطالبہ شروع کر دیا ،  جس کے بعد مجبورا ً انہیں یہ سکریپ پیسے دے کر اٹھانا پڑا۔

شازیہ کہتی ہیں کہ انہوں نے  زندگی میں بہت  مشکلات دیکھیں  لیکن الحمد اللہ وہ  اب لوگوں کو سیکھاتی ہیں  اور سوشل میڈیا کےذریعے بھی لوگوں کواس آرٹ کے متعلق آگاہی فراہم کرتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن