’قدر نہیں کی گئی اس لیے ہم نے بلوچستان چھوڑ دیا‘

نذیر خضداری اپنا گزارہ کراچی کی سڑکوں، مزاروں اور ڈھابوں پر راگ سنا کر ہی کرتے ہیں تا کہ ان کے گھر والوں کو بھوکے پیٹ نہ سونا پڑے۔

بلوچستان کا ثقافتی راگ اور موسیقی پوری دنیا میں مشہور ہے مگر بلوچستان کے ایسے کئی راگی ہیں جو موسیقی کا ہنر تو رکھتے ہیں لیکن معاشی تنگی، وسائل کی عدم موجودگی اور امن و امان کی ابتر صورت حال کے باعث دنیا کو اپنے ہنر کا جلوا نہیں دکھا پاتے ہیں۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے ہی راگی ہیں نذیر خضداری جن کی سریلی آواز کراچی کی سڑکوں، ڈھابوں اور مزاروں پر گونجتی ہے مگر ان کا فن اور ہنر اب بھی دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے۔

نذیر خضداری کا تعلق بلوچستان کے پسماندہ علاقے ضلع خضدار سے ہے۔ انہیں موسیقی ورثے میں ملی ہے یعنی وہ بلوچستان کے ہنر سے سرشار خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے باپ، دادا، چچا کا موسیقی سے خاص تعلق رہا ہے۔

وہ شہرِ قائد میں کل 10 سال سے رہائش پذیر ہیں اور اپنا گزارہ کراچی کی سڑکوں، مزاروں اور ڈھابوں پر راگ سنا کر ہی کرتے ہیں تا کہ ان کے گھر والوں کو بھوکے پیٹ نہ سونا پڑے۔

انڈپینڈںٹ اردو سے گفتگو میں نذیر خضداری نے بتایا کہ موسیقی ان کا خاندانی پیشہ ہے اور انہوں نے موسیقی کا آغاز 25 سال کی عمر میں کیا۔

انہوں نے کہا: ’میرے چچا حضور بخش خضداری میرے استاد ہیں۔ جنہوں نے صدارتی ایواڈ بھی لیا تھا اور اپنے وقت کے بڑے نامی گرامی گلوکار رہے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا: ’میں نے بلوچستان میں 15 سال اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔  میں نے ریڈیو سٹیشن، ٹی وی، آرٹس کاونسل میں کام کیا اور پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی گیا۔ میں اسلام آباد، لاہور، ایوبیہ، کوہ مری تک بھی گیا۔ مگر میرے اوپر کسی نے غور نہیں کیا۔ پھر میں نے اپنے فن کا مظاہرہ ہر جگہ شروع کردیا۔‘

بلوچستان چھوڑنے سے متعلق سوال پر انہوں نے بتایا کہ صوبہ چھوڑنے کی وجہ یہی تھی کہ وہاں ان کی قدر نہیں کی گئی اور دوسرے فنکاروں کو جو کہ نسلی راگی نہیں ہیں ان کو زیادہ ترجیح دی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نئی نسل کے موسیقی کی طرف رجحان کے متعلق سوال پر انہوں نے بتایا: ’ بلوچستان کی نئی نسل موسیقی پر توجہ دیتی ہے مگر جو حضور بخش خضداری کا نشین ہے وہ نہیں چلا سکتے چاہے جو بھی ہو جائے کیونکہ وہ ہماری نسل اور ہمارے خون میں ہے۔ وہ ہمارا نسلی کام ہےاور صرف ہم ہی چلا سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہماری نسل ختم ہو رہی ہے۔ ہماری ثقافت پر فرق پڑھ رہا ہے۔‘

خضداری نے اپنے معاشی حالات کے بارے میں بتایا  کہ وہ کراچی کے مزاروں اور ہوٹلوں پر اپنا راگ سنا کر دن میں تقریباً دو سے تین ہزار کما لیتے ہیں لیکن کچھ دن ایسے بھی گزرتے ہیں کہ ان کو خالی ہاتھ گھر واپس جانا پڑجاتا ہے۔

بلوچستان واپس جانے سے متعلق سوال پر نذیرخضداری نے کہا: ’ہماری بلوچی زبان میں کہتے ہیں آہے وطن ہشک دار یعنی ہمیں آپ لندن بھی لے جائیں تو ہم آپ کو یہی کہیں گے کہ ہمارا وطن ہمارے لئے اچھا ہے چاہے ہم امریکہ ہی کیوں نہ چلے جائیں۔‘

  انہوں نے کہا: ’میں کراچی میں رہتا ہوں کراچی ہمارا دل ہے مگر میرا وطن بلوچستان مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ میں واپس جاؤں گا مگر ابھی میرا دل کمزور ہے، میں اپنا علاقہ ہی بھول چکا ہوں۔‘

نذیر خضداری نے واپس جانے کے بعد پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان میں مشکلات ہی مشکلات ہیں کیونکہ وہاں کی آبادی کم ہے اس لیے وہاں ان کو زیادہ توجہ نہیں دی جائے گی۔

(ایڈیٹنگ: ندا مجاہد حسین)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن