جبری مشقت یا سوشل میڈیا کا اندھا پن

تعلیم کی کمی کہہ لیجیے یا پھر کچھ اور لیکن آدھی معلومات پر مبنی بچے کی سرسری کہانی آج تیسرے روز بھی اس کیپشن کے ساتھ سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے: ’ناصر پور پشاور فروٹ منڈی میں ایک بچے سے جبری مشقت لی جارہی ہے۔‘

چار بھائیوں میں ارشاد تیسرے نمبر پر ہے اور کچھ باغی طبیعت کا مالک ہے (تصویر : انیلا خالد)

تین دن پہلے پشاور کے رہنے والے ایک بچے کی تصاویر نے سوشل میڈیا پر  ایک ہنگامہ برپا کردیا تھا، جس کے بعد کئی سوالات اور بحث و مباحثوں نے جنم لیا۔

تصاویر میں ایک کم عمر بچے کو جبری مشقت کرتے دکھایا گیا تھا۔ میلے کپڑوں میں ملبوس آبلہ پا  یہ بچہ کسی ڈھابہ نما ہوٹل پر اس حال میں کام میں مصروف تھا کہ اس کے پاؤں میں دھاتی زنجیر بندھی ہوئی تھی جبکہ مالک اس کے کام پر نظر رکھے ہوئے تھا۔

مختلف زاویوں سے لی گئی ان پانچ تصاویر کے مالک نے سوائے لوکیشن کے، کسی قسم کی معلومات نہیں دی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے ہر کسی نے تصاویر کو اپنی سوچ کے مطابق معنی پہنائے۔ کسی نے اس کو ریاست کی ناکامی  کہا تو کسی نے اداروں کو کوسنا شروع کردیا جبکہ اکثریت نے ہوٹل کے مالک کو  عبرت ناک سزا دینےکا مطالبہ کیا۔

چند ہی گھنٹوں کے اندر اندر ایس ایس پی آپریشنز اور ڈپٹی کمشنر پشاور بھی ٹوئٹر پر پہنچ گئے، جنھوں نے واقعے کی فوری تحقیقات کی یقین دہائی کروائی۔

اب ظاہر ہے جب معاملہ انسانی حقوق کا ہو اور پھر اس  پر تمام لوگ یکجا ہو کر مطالبہ کرنا شروع کر دیں تو اداروں کو بھی معمول سے زیادہ مستعدی دکھانی پڑتی ہے کیونکہ یہ ان کی اچھی اور بری کارکردگی کا بھی سوال ہوتا ہے۔

خیر شام ہوتے ہی ڈھابے کے مالک کو گرفتار کرکے حوالات میں بند کر دیا گیا اور جب بیان دینے کے لیے بچے کو بھی پولیس سٹیشن لایا گیا تو معلوم ہوا کہ بچے کو زنجیروں میں جکڑنے والا کوئی اور نہیں خود اس کا والد ہے۔

والد نے کہا، ’صاحب میں کیا کروں۔ میری اپنی سگی اولاد ہے لیکن یہ بگڑ گیا ہے۔ گھر سے بھاگ جاتا ہے۔ کئی کئی راتیں غائب رہتا ہے۔ چوریاں کرتا ہے۔ لوگ اس کی شکایتیں لے کر آتے ہیں۔ مجبور ہو کر یہ قدم اٹھانا پڑا۔‘

ٹی وی چینلز والے پہنچ گئے، رپورٹرز کا تھانے میں تانتا بندھ گیا۔ انہوں نے بھی بیان لینے کی درخواست کی اور یوں رات گئے تک یہ سب چلتا رہا۔ جس کی وجہ سے والد کے ساتھ ساتھ بیٹے نے بھی رات پولیس سٹیشن میں گزاری۔ سوشل میڈیا پر بھی معاملہ گرم تھا۔ کسی نے کہا بچے کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے سپرد کر دیا جائے گا تو کسی نے اس کو گھر بھجوانے کی تجویز دی۔

پولیس والوں کو بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کریں تو کیا کریں کیونکہ بچے کے بھاگ جانے کی صورت میں ان کے لیے مسئلہ کھڑا ہو جاتا۔غرض بچے نے تقریباً دو دن اور ایک رات پولیس سٹیشن میں گزارے۔

میں بھی پولیس سٹیشن گئی۔ بچے کا نام ارشاد تھا۔ اس سے ملی۔ وہ کافی تھکا ہوا نظر آرہا تھا اور اس کی آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔ اس نے بتایا کہ کل رات وہ سو نہیں سکا- پھر صبح سویرے اس کا 14 سالہ بڑا بھائی بھی پولیس سٹیشن آکر بیٹھ گیا۔

دونوں سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ چار بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ ان کا تعلق باجوڑ سے ہے اور ناصر پور فروٹ منڈی میں ان کا چائے کا ایک چھوٹا سا ڈھابہ ہے۔

چار بھائیوں میں ارشاد تیسرے نمبر پر ہے اور کچھ باغی طبیعت کا مالک ہے، جس کی ذمہ داری گھر والوں نے انھوں نے گلی کے لڑکوں پر ڈال دی۔ ارشاد کبھی سکول نہیں گیا۔ اسے مدرسے میں داخل کروایا گیا تھا لیکن وہ وہاں سے بھاگ گیا تھا۔

گھر میں کمائی کرنے والے صرف ان کے والد ہی ہیں، لیکن جب سے وہ حوالات میں ہیں تو ان کا ہوٹل بھی بند پڑا ہے۔ 

ارشاد  باتوں سے کبھی نہایت معصوم تو کبھی ایک 50 سالہ شخص کی طرح معلوم ہوا۔ دوسرے دن شام گئے میں نے بچے کے بارے میں معلومات لینے کے لیے دوبارہ افسران بالا کو کال کی اور ان سے درخواست کی کہ بچے کو گھر جانے دیا جائے، لہذا اسے گھر جانے دیا گیا۔

چونکہ والد کو دوسرے ہی دن جیل منتقل کر دیا گیا تھا لہذا ان کی رہائی صرف عدالت کے حکم پر ہی عمل میں لائی جا سکتی تھی۔

کل رات مجھے بار بار خیال آتا رہا کہ کمائی والا تو جیل چلا گیا ہے، نہ جانے گھر کے حالات کیا ہوں گے۔ لہذا صبح ہوتے ہی ارشاد کے گھر کال کرکے اس کی والدہ سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ والد کی غیر موجودگی میں بچے ڈھابے کا کام نہیں سنبھال سکتے، لیکن آس پڑوس والے اچھے لوگ ہیں، ان کی مدد کر رہے ہیں اور دکان سے آٹا، سبزی ادھار پر مل جاتا ہے۔  وہ التجا کر رہی تھی کہ ان کے شوہر کو چھوڑ دیا جائے۔

جب میں نے ایس ایس پی آپریشنز سے ارشاد کے والد کی ضمانت کی بات کی تو انھوں نے کہا کہ پولیس اس کا انتظام کر رہی ہے۔

یہ ہوتا ہے آدھی خبر شائع کرنے کا نتیجہ۔ غریب خاندان اور بچے کی مدد کے بجائے ان کو مزید اذیت میں مبتلا کر دیا گیا۔

اب سوچنے کا مقام ہے کہ اگر تصاویر کھینچنے والے نے عوام کو ظلم دکھانے کی بجائے آس پاس کے لوگوں سے یا خود ہوٹل کے مالک سے ہی پوچھ لیا ہوتا کہ بچے کے پاؤں میں زنجیر کیوں باندھی گئی ہے تو نتائج کچھ اور ہوتے۔ ہوسکتا تھا کہ پولیس کی بجائے کچھ ادارے بچے کی مدد کو پہنچتے۔

جہاں تصویریں اَپ لوڈ کرنے والے نے غلطی کی، وہیں سوشل میڈیا کے صارفین سے بھی غلطی ہوئی کہ معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی بجائے جھٹ سے الزام تراشیاں اور جذباتی تبصرے کرنا شروع کر دیے، جو کہ ایک  طرح سے ہمارا قومی المیہ بھی بن چکا ہے۔

تعلیم کی کمی کہہ لیجیے یا پھر کچھ اور لیکن آدھی معلومات پر مبنی بچے کی سرسری کہانی آج تیسرے روز بھی اس کیپشن کے ساتھ سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے: ’ناصر پور پشاور فروٹ منڈی میں ایک بچے سے جبری مشقت لی جارہی ہے۔‘

وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو پہچان لیں۔ بصورت دیگر نتائج ہم سب کے لیے پریشان کن ہوں گے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ