یوکرین جنگ: تنہا روسی بیویوں کی مشکلات سے بھری زندگی

روسی فوج میں زبردستی بھرتی کے اعلان پر بہت سارے مرد ملک چھوڑ کر جلاوطنی اختیار کر چکے ہیں۔

چمکیلے رنگ کے گرم سوٹ میں لپٹی یکاترینا فلیمونووا سائیکل پر ماسکو کی برف پوش سڑکوں سے گزرتے ہوئے اپنے تین بیٹوں کو نرسری چھوڑنے جاتی ہیں۔

 پہلے ان کے شوہر یاروسلاو لیونوف یہ کام کرتے تھے لیکن اب صورت حال بدل چکی ہے۔

فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ستمبر میں جب صدر ولادی میر پوتن نے اعلان کیا کہ روسی مردوں کو یوکرین میں لڑنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے تو اس وقت لیونوف فرار ہو گئے اور اب بیرون ملک جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

34 سالہ فیلیمونووا نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’وہ چلے گئے اور اگلے ہی دن میں بیمار ہو گئی۔ میں اس قدر تناؤ کا شکار تھی کہ ایک ماہ تک صحت یاب نہیں ہو سکی۔

بلاوے کے کچھ دن بعد ان کے شوہر نے اپنی بائیک لی، 1،500 کلومیٹر دور پڑوسی ملک قازقستان کے قریب ایک شہر جانے کے لیے ٹرین پکڑی اور سائیکل پر سرحد عبور کر گئے۔

فیلیمونووا نے کہا کہ ’وہ ہمیں چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔‘ لیکن بچوں کی پرورش کا بوجھ تن تنہا برداشت کرنے والی وہ اکیلی نہیں ہیں۔

دسیوں ہزار فوجی بھرتی کی عمر والے مردوں کی عجلت میں نقل مکانی نے خاندانوں کو تقسیم کرتے ہوئے بوجھ  پورے روس میں ماؤں پر ڈال دیا ہے۔

ایسے متاثرہ خاندانوں کی تعداد کے بارے میں کوئی اعداد و شمار نہیں لیکن ماسکو میں نرسری کے ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ایک گروپ میں تقریباً ایک تہائی باپ بیرون ملک تھے۔

فلیمونووا نے کہا: ’پہلا مہینہ یقیناً بہت افسوس ناک تھا۔ یہ میرے اور بچوں کے لیے بہت مشکل تھا۔ جب میں پریشان ہوتی ہوں تو وہ روتے ہیں اور وہ رات کو روتے ہیں۔ مجھے احساس ہوا کہ مجھے خود کو سنبھالنا چاہیے۔‘

اپنے خاندان کی تقسیم کے باعث وہ اپنی دادی کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گئی ہیں، جو اپنے ماہر ارضیات شوہر سے اس وقت بچھڑ گئی تھیں جب انہیں کام کے لیے منگولیا بھیجا گیا۔

فیلیمونووا نے کہا کہ ’مجھے سمجھ آنے لگی ہے کہ وہ کیسا محسوس کرتی ہوں گی۔ میں نے پہلے اس کے بارے میں سوچا نہیں تھا۔‘

اب جلاوطن روسی آئی ٹی ملازمین کے مرکز سربیا کے دارالحکومت بلغراد میں سافٹ ویئر ڈویلپر لیونوف جدوجہد کر رہے ہیں۔

ستمبر میں انہیں اس خوف سے روس چھوڑنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آیا کہ انہیں بھی فوج میں بھرتی کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا: ’میں روسی رولیٹ نہیں کھیلنا چاہتا تھا، بہت ممکن ہے کہ آپ جیت جائیں لیکن تھوڑا سا امکان ڈرامائی اختتام بھی ہے۔‘

بلغراد میں ان کی ملاقات ریاضی کے ایک پرانے استاد سے ہوئی، جنہوں نے 24 فروری کو پوتن کی جانب سے یوکرین میں فوج بھیجنے کے فوری بعد روس چھوڑ دیا تھا۔ اب وہ ایک کرائے کے مکان میں ساتھ رہتے ہیں۔ لیکن محفوظ ہونے کی تسلی سے علیحدگی کا درد کم نہیں ہوا۔

ماسکو میں اپنے چھوٹے سے آرام دہ اپارٹمنٹ میں فلیمونووا اپنے بیٹوں کو اکٹھا کرتی ہیں تاکہ ان کے والد ویڈیو کال پر انہیں کہانی پڑھ کر سنائیں۔ انہوں نے کہانیاں پڑھنے کے لیے صفحات کی تصاویر شوہر کو بھیجی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ’مجھے امید ہے کہ میرے بچے سمجھیں گے کہ ان کے والد یہیں موجود ہیں حتیٰ کہ بلغراد سے بھی ان کے ساتھ پیار کرتے ہیں۔‘

روس نے اکتوبر کے آخر میں موبلائزیشن کے خاتمے کا اعلان کیا تھا لیکن بیرون ملک بہت سے لوگوں کو دوسری لہر کا خدشہ ہے اور لیونوف کو واپسی میں ’خطرات‘ نظر آتے ہیں۔

ماؤں کی مدد کرنے والے ایک خیراتی ادارے کی شریک بانی اناستاسیا آرسینکیوا نے کہا کہ موبلائزیشن کے بعد ان کی تنظیم کو آنے والی کالوں میں اضافہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ بہت سی خواتین نے اپنے شوہروں کو چھوڑنے کی ترغیب دی اور اسے ’زندگی اور موت کے درمیان انتخاب‘ کے طور پر دیکھا لیکن اب انہیں مشکلات درپیش ہیں۔

(ایڈیٹنگ: بلال مظہر | ترجمہ: العاص)

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ