پاکستان میں تمباکو کی پیداوار کیوں بڑھ رہی ہے؟

پاکستان میں اگلے مالی سال کے لیے تمباکو کی طلب 85.8 ملین کلوگرام تک بڑھ گئی ہے، جو پاکستانی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔

22 اپریل 2017 کی اس تصویر میں مردان میں تمباکو کا ایک کھیت دیکھا جاسکتا ہے (اے ایف پی)

رشیدہ بی بی بیوہ ہیں۔ ان کی زندگی کا آخری سہارا ان کا 25 سالہ بیٹا ہے جو پھیپھڑوں کے کینسر سے لڑ رہا ہے۔ اسے یہ مرض سگریٹ نوشی کی وجہ سے لاحق ہوا ہے۔

آج انہوں نے یہ خبر پڑھی کہ پاکستان میں اگلے مالی سال کے لیے تمباکو کی طلب 85.8 ملین کلوگرام تک بڑھ گئی ہے، جو پاکستانی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے جبکہ موجودہ مالی سال میں یہ طلب تقریباً 53.575 ملین کلو گرام تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت سگریٹ نوشی کے خلاف اقدامات کرنے کی دعوے دار ہے لیکن زمینی حقائق مختلف ہیں۔ بقول رشیدہ بی بی: ’میں سگریٹ نوشی کے خلاف حکومتی پالیسیوں کو اس وقت درست مانوں گی جب نوجوانوں میں اس کا استعمال کم ہو گا اور کسی کا جوان بیٹا تمباکو کی وجہ سے کینسر کا شکار نہیں ہو گا۔‘

تمباکو کی پیداوار بڑھنے کے حوالے سے پاکستان ٹوبیکو بورڈ نے کہا ہے کہ پاکستان میں تمباکو کی سالانہ پیداوار 113 ملین کلوگرام ہے، جو 50 ہزار 787 ہیکٹر رقبے پر کاشت کی جاتی ہے۔

یہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ، صوابی، مردان، بونیر اور چارسدہ کے اضلاع میں کثرت سے کاشت کی جاتی ہے۔

پاکستانی تمباکو کی بیرون ملک ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے تمباکو کمپنیاں کسانوں سے پیداوار بڑھانے کے دیرپا معاہدے کر رہی ہیں۔ مالی سال 22-2021 میں 22.4 ملین کلوگرام تمباکو برآمد کیا گیا تھا، جس سے 77.3 ملین ڈالرز زرمبادلہ کمایا گیا تھا۔ اگلے سال تمباکو سے حاصل ہونے والا زرمبادلہ سوگنا بڑھ سکتا ہے۔

تمباکو پیدا کرنے والے کسان شاہ زیب خان کے مطابق: ’یورپی ممالک کو پاکستانی تمباکو انتہائی سستا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے ایجنٹس کو ہم سے لمبے معاہدے کرنے کے لیے بھیج رہے ہیں۔ پیداوار زیادہ ہونے کی وجہ زہریلی ادویات کا استعمال ہے، جس سے علاقے کی معاشی حالت بدل گئی ہے۔ پیسے تو اچھے مل جاتے ہیں لیکن صحت خراب ہو جاتی ہے۔ بچے اور خواتین زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔‘

ڈاکٹر ندیم یوسف تمباکو کے استعمال پر ریسرچ کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق: ’تمباکو کا استعمال ادویات کی تیاری میں بھی بہت زیادہ ہو رہا ہے بلکہ انگریزی کا لفظ Nicotina یا Nicotine جین نکوٹ کے اعزاز میں رکھا گیا تھا جو پرتگال میں فرانسیسی سفیر کے عہدے پر تعینات تھے۔ انہوں نے ہی پہلی بار 1559 میں تمباکو کو عدالت کے روبرو ایک دوا کے طور پر متعارف کروایا تھا۔ آج کل جن ادویات میں نکوٹین کی ضرورت ہوتی ہے وہاں تمباکو کا استعمال کیا جاتا ہے۔‘

لیکن کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ درآمدات پر پابندی اور درآمدی ڈیوٹی بڑھانے کی وجہ سے سگریٹ بنانے والی کمپنیوں کو نقصان ہو رہا ہے، اس لیے انہوں نے سگریٹ درآمد کرنے کی بجائے ملک میں تیار کرنے کی سٹریٹجی بنائی ہے تاکہ ملک میں زیادہ تعداد میں سستے سگریٹس بیچے جا سکیں اور زیادہ منافع کمایا جا سکے۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہے۔

’کیمپین فار ٹوبیکو فری کڈز‘ کے کنٹری ہیڈ ملک عمران احمد کے مطابق: ’حکومت سگریٹ نوشی کو کم کرنے کے لیے واضح اقدامات نہیں کر رہی۔ ہر سال تمباکو نوشی کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں کے باعث تقریباً ایک لاکھ 70 ہزار پاکستانی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔‘

سپارک کے منیجر خلیل احمد ڈوگر کے مطابق: ’ایک طرف حکومت تمباکو نوشی کی حوصلہ شکنی کی دعویدار ہے اور دوسری طرف سوشل میڈیا پر تمباکو نوشی کے نئے طریقوں اور پراڈکٹس کی خوب تشہیر ہو رہی ہے۔ سکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے قریب خوب تشہیری مہم چل رہی ہے۔  کمپنیاں نئی نسل کو اپنا کسٹمر بنانے پر فوکس کر رہی ہیں تاکہ ان کے منافع میں اضافہ ہوتا رہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لاہور چیمبر آف کامرس انڈسٹری پروگریسو گروپ کے صدر خالد عثمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس حوالے سے بتایا کہ ’اگر پاکستان بھنگ کی کاشت بڑھا کر اسے برآمد کر سکتا ہے تو برآمد کی غرض سے تمباکو کی پیداوار بڑھانا درست ہے، لیکن دیکھنا ہو گا کہ حکومت مقامی سطح پر اس کے استعمال کو کس طرح روکتی ہے۔ سگریٹ میں استعمال ہونے والے تمباکو پر مزید ٹیکس لگائے جانے چاہییں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’دنیا کی نسبت پاکستان میں سگریٹ بہت سستا ہے۔ حکومت نے سال 2017 میں تمباکو نوشی کی صنعت سے 82 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا اور چار سال بعد سال 2021 میں ٹیکس میں صرف 43 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ سال 2021 میں سرکار نے صرف 135 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا ہے۔ یہ معمولی اضافہ بھی ٹیکس ریٹ میں اضافے کی بدولت نہیں بلکہ فروخت میں اضافے کی وجہ سے ہوا ہے۔ آئی ایم ایف بھی سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہی۔‘

بقول خالد عثمان: ’اس کے علاوہ سگریٹ کے پیکٹس پر 2015 میں ایک قانون کے ذریعے یہ لازم کر دیا گیا ہے کہ 90 فیصد جگہ پر خوفناک تصاویر شائع کی جائیں گی جو اسے استعمال کرنے والوں کو اس کے نقصانات سے آگاہ اور خبردار کر سکیں، لیکن اس کے برعکس تمباکو نوشی کی جدید دکانیں، رنگ برنگی پیکنگ، دکانوں میں سگریٹ نوشی کے لیے مخصوص صوفے اور کرسیوں کے انتظام سے نوجوانوں میں سگریٹ کا استعمال بڑھ رہا ہے۔‘

سرکاری سطح پر قائم ادارے ٹوبیکو کنٹرول سیل کے مطابق تمباکو کی پیداوار بڑھنے کی وجہ اس کے استعمال میں اضافہ ہے۔ پاکستان میں تمباکو کا استعمال کرنے والوں کی تعداد دو کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس کُل تعداد میں سے تقریباً ایک کروڑ 60 لاکھ افراد تمباکو کا استعمال سگریٹ کے ذریعے کرتے ہیں۔

حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ تمباکو کی پیداوار بڑھانے کے نقصانات زیادہ ہیں۔ جب تک حکومت موثر پالیسی نہیں بنا لیتی، تمباکو کی پیداوار کی حوصلہ شکنی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ