چھ ماہ میں 1300 سے زائد افغان شہری ہلاک ہوئے

امریکی اور حکومتی فوج کے حملوں میں مارے جانے والے شہریوں کی تعداد طالبان اور دوسرے شدت پسند گروپوں کے حملوں میں مارے جانے والے افراد سے زیادہ ہے: اقوام متحدہ۔

رواں سالکے پہلے چھ ماہ میں امریکی اور افغان فوج کے حملوں میں 717 شہری ہلاک ہوئے (اے ایف پی)

اقوام متحدہ نے منگل کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا کہ افغانستان میں 18 سالہ جنگ کے خاتمے کی کوششوں کے باوجود عام شہریوں کو ’ناقابل قبول اور دردناک‘ سطح پر قتل اور زخمی کیا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ اسسٹنس مشن افغانستان (یو این اے ایم اے) کی رپورٹ کے مطابق 2019 کے پہلے چھ ماہ میں گذشتہ سال کی نسبت ہلاکتوں میں 30 فیصد تک کمی آئی اور لیکن رواں برس کے پہلے چھ ماہ میں 1366 شہری ہلاک جبکہ 2446 افراد زخمی ہوئے۔

اقوام متحدہ نے ہلاکتوں میں کمی کو خوش آئند قرار دیا تاہم اس کے ساتھ ساتھ یواین اے ایم اے کے بیان میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کو ناقابل قبول اور اندوہناک قرار دیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیان میں مزید کہا گیا کہ تنظیم تمام فریقین کی جانب سے شہریوں کی ہلاکتوں میں کمی کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سراہتی ہے لیکن یہ کوششیں ناکافی ہیں۔ یو این اے ایم اے کے بیان میں مزید کہا گیا کہ مسلسل دوسری شش ماہی میں امریکی اور سرکاری فوج کے حملوں میں مارے جانے والے شہریوں کی تعداد طالبان اور باقی شدت پسند گروپوں کے حملوں میں مارے جانے والے افراد سے زیادہ ہے۔

2019 کے پہلے چھ ماہ میں امریکی اور افغان فوج کے حملوں میں 717 شہری ہلاک ہوئے، جوگذشتہ سال کے مقابلے میں 31 فیصد اضافہ ہے۔ ان میں زیادہ تر ہلاکتیں امریکی اور افغان زمینی فورسز کی مدد کے لیے فضائی حملوں میں ہوئیں۔

افغانستان میں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافے کا سلسلہ کئی مہینوں سے جاری مذاکرات کے باوجود تھما نہیں۔

امریکہ طالبان سے امن معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس کے بدلے طالبان غیر ملکی افواج کے ملک سے نکل جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ امریکہ سکیورٹی معاملات میں مختلف یقین دہانیوں کا خواہاں ہے۔

جولائی کے اوائل میں امن کوششوں کے حوالے سے طالبان اور افغان نمائندوں کے درمیان دوحہ میں تاریخی ملاقات بھی ہوئی تھی۔ ملاقات میں شامل وفود نے مبہم انداز میں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں صفر تک کمی لانے کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے باوجود گذشتہ ہفتوں میں عام افغانوں کے قتل اور زخمی ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔

یو این اے ایم اے کے سربراہ تدامچی یاماموٹو نے ایک بیان میں کہا: ’ہر کسی نے یہ پیغام بہت صاف اور واضح انداز میں سنا جو دوحہ میں افغان وفود کے درمیان مذاکرات کے بعد جاری کیا گیا کہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کو صفر پر لانا ہوگا۔ ہم تمام فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس پر عمل کریں اور افغانوں کو پہنچنے والی تکالیف کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔‘

یو این اے ایم اے کا کہنا ہے کہ رپورٹ ہونے والی ہلاکتوں میں سے ایک تہائی ہلاکتیں بچوں کی ہیں۔ اس سال ہونے والے حملوں میں ہلاک بچوں کی تعداد 327 جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 880 ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق گذشتہ سال قتل عام کے لحاظ سے ریکارڈ بدترین سال تھا جس میں تین ہزار 804 عام شہری ہلاک ہوئے جن میں 927 بچے شامل تھے۔

افغانستان کے طالبان نے اقوام متحدہ کی طرف سے جاری شدہ اس رپورٹ کے چند پہلوؤں کو مسترد کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکہ اور افغان ریاستی ادارے عام شہریوں کے قتل عام میں ملوث ہیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا