بوڑھا شیر اور زخمی ٹائیگر۔۔۔

عمران خان کی سیاست پر جتنی بھی تنقید کی جائے لیکن حالیہ دنوں میں ان کی جانب سے کیے گئے اقدامات پر ان کو داد دینی بنتی ہے۔

تصاویر: اے ایف پی

شیر اب بوڑھا اور سہل پسند ہو چکا۔ گھنے جنگل کی گھمبیرتا سے ذرا پرے اپنی عہدِ رفتہ کی درخشاں نشانی جیسی کچھار میں آرام فرماتا نشاتِ ثانیہ کی رُونمائی دوئم کے خواب بُنتا زندگی بسر کر رہا۔ کبھی کبھار جو شکار کے سنہری دنوں کی یاد زیادہ ستائے تو کچھار کے آس پاس کے علاقوں میں ذرا ہاتھ پاؤں چلا لیے یا گئے دنوں کی یاد میں وقتی روایتی دھاڑ سے جنگل میں گونج  پیدا کر کے اپنے ہونے کا احساس دیگر کے ساتھ ساتھ خود کو بھی دلا کر دلاسہ دے لیا۔

شیر کے قبیلے کے دیگر ساتھی بھی ظاہراً اپنے سردار کی سہل پسندی کے زیرِاثر آ گئے اور بخلافِ فطرت گھنے جنگل کے شکار کی نسبت محفوظ علاقوں میں گھوم پھر کر سامانِ زندگی کا بندوبست کرنے لگے۔ آخری بڑے شکار کا مقابلہ کیے بھی اب تو کئی ماہ بیت گئے؛ جس کا تو ذائقہ بھی اب بھوک مٹانے کے بہم نہ رہا؛ اِسی بڑے معرکے کی کارستانی میں بوڑھے شیر نے اپنے قبیلے کے ساتھ مل کر اپنے حریف ٹائیگر کو ایسا زخمی کر دیا تھا کہ وہ آج تلک زخم چاٹ کر مندمل کرنے کی سعی میں ہے۔

لیکن اس دوران بوڑھا شیر شکار سے دور جبکہ زخمی ٹائیگر اپنے زخموں کا مرہم کرنے گھنے جنگل کا شکاری ہی بنا رہا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بوڑھے شیر کی عدم موجودگی اور سہل پسندی میں زخمی ٹائیگر نے آہستہ آہستہ گھنے جنگل میں اپنی دھاک بٹھانی شروع کر دی اور چھوٹے بڑے جانور زخمی ٹائیگر کو ہی جنگل کا نیا بادشاہ تسلیم کرنے پر آمادہ ہوتے نظر آنے لگے۔ حتی کہ جنگل کی طاقت کی علامت بھاری بھرکم ڈیل ڈول والا مقتدر ہاتھی بھی زخمی ٹائیگر کی پھرتیوں اور شکار کی کامیابیوں سے مرعوب نظر آنے لگا۔

ایسے میں جنگل کے قانون کانتیجہ کیا نکلتا ہے؛ اس سے آگے کی کہانی کا اندازہ لگانا مشکل تو نہیں۔۔۔

عمران خان کی جانب سے پنجاب میں ایک اچانک اور انتہائی مؤثر سیاسی چال نے ن لیگ کو بیک فٹ پر دھکیل دیا ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے پنجاب اسمبلی میں رات گئے اعتماد کا ووٹ اور لیگی دعوؤں کے برعکس اس میں کامیابی عمران خان کے سیاسی بصیرت کی دلیل ہے۔

اس کے ساتھ ہی پرویز الٰہی نے تمام قیاس  کے برعکس اسمبلیوں کی تحلیل کی سمری پر دستخط کر کے ن لیگی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔

ن لیگ کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ پہلے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ارکان پورے نہیں اسی لیے وہ اعتماد کا ووٹ نہیں لیں گے، لیکن انہوں نے ناراض اراکین کے باوجود 186 ووٹ لے کر بازی اپنے نام کی۔ ابتدا میں ن لیگ نے پنجاب اسمبلی میں اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور کہا کہ انہوں نے دھوکے سے یہ کارروائی کی ہے لہٰذا ہم اس ووٹ کو نہیں مانتے اور اس کے خلاف ہم عدالت جائیں گے۔

اس کے بعد اگلے روز ن لیگ نے خاموشی سے اعتماد کے ووٹ کو تسلیم کر لیا۔

بعد ازاں یہ بات کی گئی کی اسمبلی  سے ووٹ تو لے لیا لیکن پرویز الٰہی آسانی سے اسمبلی نہیں توڑیں گے بلکہ ٹال مٹول سے کام چلائیں گے  مگر اس محاذ پر بھی وہ زیادہ نہیں ٹک پائے اور پرویز الٰہی نے عمران خان سے  ملاقات کرکے اسمبلی کو تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کر کے ان کا یہ خواب بھی چکنا چور کردیا۔

عمران خان کی سیاست پر جتنی بھی تنقید کی جائے لیکن حالیہ دنوں میں ان کی جانب سے کیے گئے اقدامات پر ان کو داد دینی بنتی ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی کا اعتماد کا ووٹ لینا عملاً عمران خان کی جیت ہے۔ ان کی یہ جیت ن لیگ کو کانٹے کی طرح چبھ رہی ہے۔ اس جیت نے ن لیگ کو پنجاب کے حوالے سے اپنی پالیسی پر دوبارہ نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان سارے اقدامات کے بعد عمران خان کے  لیے اگلا مرحلہ نئے انتخابات ہوں گے۔

عمران خان بظاہر اپنے جلد انتخابات کے پلان میں کامیاب نظر آرہے ہیں۔ اب وفاقی حکومت اس ساری صورتحال سے کیسے نمٹتی ہے یہ قابل ذکر ہو گا۔

پنجاب میں حالیہ سیاسی سرگرمیوں سے عمران خان نے اپنی پوزیشن ظاہر کردی ہے کہ وہ کہاں پر کھڑے ہیں لیکن انہوں نے ساتھ ہی نواز شریف کو یہ پیغام  بھی دیا ہے کہ ان کے بغیر ن لیگ کچھ نہیں۔

حالیہ سیاسی پیش رفت کے بعد شریف خاندان میں بھی بڑی ہلچل پیدا ہوگئی ہے۔ نواز شریف اس سارے عمل کے دوران پنجاب میں لیگی قیادت سے رابطے میں ہونے کے باوجود اپنی بالا دستی قائم نہیں کر پائے۔ اور اس سارے عمل کے بعد وہ ن لیگ کی مرکزی قیادت پر شدید برہم نظر آتے ہیں۔

اس سارے عمل کے دوران ن لیگ جس طرح بے بس نظر آئی اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شریف خاندان کی غیر موجودگی میں ان کی طاقت کا سب سے بڑا مرکز پنجاب ان کے ہاتھوں سے پھسلتا جا رہا ہے۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نواز شریف ان نازک حالات میں ملک واپس آ کر چیزوں کو خود درست کرنے کیلئے اقدامات کریں گے یا اسی طرح مسلسل ہارتے رہیں گے۔

جہاں ن لیگ مسلسل شکست پر شکست کھا رہی ہے، پیپلز پارٹی خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ کیا پیپلز پارٹی اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ن لیگ کو میدان جنگ میں تنہا چھوڑ دے گی؟ خیر ایسا کہنا قبل ازوقت ہوگا لیکن جو بھی ہو اس وقت ن لیگ یا شریف خاندان کیلئے حالات انتہائی ناساز ہیں۔

ایک طرف معیشت کی روز بروز بگڑتی صورتحال ن لیگ کیلئے ایک چیلنج تو دوسری طرف آئندہ انتخابات بھی ان کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ اس وقت ملکی سیاست کے لیے آئندہ چند دن انتہائی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ جہاں ممکنہ طور پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد نگران حکومت کے لیے حکومت اور اپوزیشن نے ملک کر فیصلہ کرنا ہوگا وہیں نئے انتخابات کے لئے بھی پاکستان تحریک انصاف اپنا پورا زور لگائے  گی۔

ن لیگ اور وفاقی حکومت اب  کیا فیصلے کرے گی یہ ملک کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہے۔ کیا وفاقی حکومت صرف تحلیل شدہ اسمبلیوں پر انتخابات کرائے گی یا پورے ملک میں عام انتخابات کا رخ کرے گی۔ عمران خان نے وفاق کو سخت فیصلے لینے کیلئے مجبور کردیا ہے۔

ملکی سیاست  کو اس وقت ایک بڑے طوفان کا سامنا ہے اور اس سے کیسے  نمٹنا ہے کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا۔

اس وقت اس سارے بحران سے نکلنے کے لیے ایک ہی حل نظر آتا ہے کہ سارے فریق اپنے اختلافات مٹا کر نئے انتخابات کی طرف جائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پنجاب میں سیاسی دھوبی پٹکہ مارنے اور ن  لیگ کو ان کے گھر میں گھس کر حیران کن شکست دینے کے بعد عمران خان  کے حوصلے بہت بلند دکھائی دے رہی ہیں اور اسی بلند حوصلے کے ساتھ وہ کھل کر فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں اور اسی سلسلے میں اب وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ صدر مملکت عارف علوی کے ذریعے اتحادی حکومت پر جوابی وار کریں اور وزیر اعظم شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں۔

دو روز قبل کراچی میں ہونے والی سیاسی سرگرمیاں بھی بہت اہمیت کی حامل ہیں جہاں متحدہ قومی موومنٹ کے تین ناراض دھڑوں نے اپنے اختلافات ختم کرکے ایک ساتھ کام کرنے کا فیصلہ کیا۔

فاروق ستار کا یہ بیان کہ ہمیں اب حکومت سے باہر نکل جانا چاہیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ ایم کیو ایم کو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ایک دفعہ پھر متحد کیا جا رہا ہے ۔

ایم کیو ایم کی جانب سے وفاقی حکومت سے علیحدگی کے بعد حکومت کے پاس نمبر پورے کرنا مشکل ہو جائے گا اور وہ اس صورتحال سے شاید ہی نکل پائیں۔

 اب ایسے میں یہ دیکھنا اہم ہے کہ عمران خان کے کان میں کس نے اعتماد کے ووٹ کی بات ڈالی ہے؟ کیا اسٹیبلشمنٹ بھی یہی چاہتی ہے کہ جلد انتخابات ہوجائیں اور کیا شہباز شریف اعتماد کا ووٹ لے پائیں گے؟

اس وقت سخت معاشی حالات بھی سیاستدانوں سمیت ملک  بھر کے لیے ایک عذاب  کی صورت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کیا ان حالات میں تمام سٹیک ہولڈرز کا اسرار یہی ہے کہ جلد انتخابات کی طرف جایا جائے اور یہ سب جلد انتخابات کی راہ ہموار کرنے  کے لیے کیا جا رہا ہے؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ