بلوچستان کے شہر گوادر کا شاہی بازار، سلطنت آف عمان کے دور کا ایک مشہور بازار ہے، جہاں کی مشہور چیز ’کریمک ہوٹل‘ کی چائے ہے۔
باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو ان کے میزبان یہاں کے پرسکون ماحول کی سیر ضرور کرواتے ہیں اور انہیں کریمک ہوٹل کی چائے بھی پلاتے ہیں۔
اس ہوٹل میں صبح شام بزرگ اور نوجوان اپنے دوستوں کے ساتھ پرسکون ماحول کی تلاش میں آتے ہیں اور ہر گروپ کی الگ الگ محفل سجتی ہے۔
کریمک ہوٹل کے ایک گاہک شعبان بلوچ کے مطابق یہ ہوٹل قیام پاکستان سے پہلے کا ہے اور گودار کا قدیم ترین مقام ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا: ’میں گودار کا مقامی باشندہ ہوں اور ایک ماہی گیر کا بیٹا ہوں۔ کافی عرصے سے یہاں کام کر رہا ہوں۔ میرے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ یہ جگہ 1948 سے پہلے کی ہے۔ یہ ایک قدیمی اور تاریخی جگہ ہے۔‘
بقول شعبان: ’پہلے یہ ہوٹل ایک کمرے پر مشتمل تھا، بعد میں دو کمرے ہو گئے۔ یہاں ہزاروں لوگ آتے ہیں۔ سیاسی، سماجی لوگ، مزدور، ماہی گیر، ڈرائیور اور کبھی کبھی ڈپٹی کمشنر بھی یہاں چائے پینے کے لیے آتے ہیں۔‘
اس ہوٹل کو ’امن پسند لوگوں کا ڈھابہ‘ قرار دیتے ہوئے شعبان نے مزید بتایا کہ ’لوگ محنت مزدوری کر کے اپنی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے یہاں چائے پینے آتے ہیں اور وقت گزاری کرتے ہیں۔‘
یہاں کے ایک مستقل کسٹمر ذاکر داد جو کہ فلم میکنگ کے شعبے سے منسلک ہیں، نے بتایا کہ وہ یہاں اس لیے آتے ہیں کیونکہ انہیں روز یہاں نئے کردار مل جاتے ہیں اور نئی نئی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔