حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان جمعے کو گرفتاری دینے کے لیے گوادر کی ایک عدالت پہنچے جہاں پولیس نے انہیں عدالت میں پیش ہونے سے روکتے ہوئے حراست میں لے لیا۔
وہ دسمبر 2022 میں گودار میں دھرنے کے خلاف پولیس کی کارروائی اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاریوں کے بعد روپوش ہو گئے تھے۔
مولانا ہدایت الرحمان کے خلاف پولیس اہلکار کے قتل اور کار سرکار میں مداخلت اور شاہراہوں کو بند کرنے کے الزامات کے تحت متعدد مقدمات درج ہیں۔
حق دو تحریک کے زیر اہتمام مولانا ہدایت الرحمان نے اپنے مطالبات کے حق میں گوادر میں احتجاجی دھرنا دے رکھا تھا۔ بعد میں انہوں نے سی پیک کی مرکزی شاہراہ اور گوادر پورٹ کی شاہراہ پر دھرنا دیا۔
گزشتہ ماہ بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کی سربراہی میں صوبائی حکومت کے ایک وفد نے ان سے مذاکرات کیے تھے جو کامیاب نہ ہو سکے۔ جس کے بعد پولیس نے دوسرے دن ان کے کیمپ پر کارروائی کرتے ہوئے کچھ رہنماؤں کو گرفتار کر کے دھرنا ختم کروا دیا تھا۔
مولانا ہدایت الرحمان نے آج گوادر کی عدالت میں پیش ہونے کے دوران اپنے فیس بک پیج پر لائیو آ کر کہا کہ ’میں اپنے ساتھیوں اور وکلا کے ہمراہ یہاں گرفتاری دینے آیا ہوں۔ ہم قانون کا احترام کرتے ہیں۔
’ہماری جدوجہد پرامن ہے، جعلی مقدمات کا سامنا کریں گے، ساحل بلوچستان پرغیر قانونی شکار کرنے والے ٹرالر مافیا کے خلاف ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بھتہ خوری، منشیات اور لینڈ مافیا کے خلاف جدوجہد کرتے رہیں گے۔ جو لوگ لاپتہ ہوئے ہیں، ان کے لیے بھی آواز بلند کرتے رہیں گے۔‘
مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ جعلی مقدمات اور جیلیں ان کا راستہ نہیں روک سکتیں، قانونی اور سیاسی حوالے سے ہم ان کا مقابلہ کریں گے، ہم کسی سے خوف زدہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ گوادر آپریشن ان لوگوں نے کیا جو کہتے تھے کہ ’ہمیں بنگال چاہیے بنگالی نہیں چاہیے، وہی کہتے ہیں کہ ہمیں گوادر چاہیے گوادری نہیں چاہیے۔‘
مولانا ہدایت الرحمان کی گرفتاری کے بعد میڈیا کے سوال پر گوادر پولیس کے ایک افسر نے بتایا کہ انہیں تھانے لے جایا جا رہا ہے، تاہم وہ اس حوالے سے باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے تفصیل سے آگاہ کریں گے۔
گوادر کے صحافی اللہ بخش دشتی نے بتایا کہ مولانا دایت عدالت میں پیش ہو کر گرفتاری دینا چاہتے تھے، تاہم پولیس نے اس سے قبل انہیں گرفتار کر لیا۔
اللہ بخش دشتی نے بتایا کہ ’مولانا ہدایت الرحمان اپنے ساتھیوں اور وکلا کے ہمراہ گوادر کی عدالت کی عمارت میں ساڑھے 11 بجے آئے، جہاں انہوں نے میڈیا سے بات کے علاوہ اپنے فیس بک پیج پر لائیو بھی کیا۔
انہوں نے بتایا کہ جیسے ہی مولانا نے فیس بک پیج پر لائیو ختم کیا اور ارادہ کیا کہ وہ عدالت جائیں گے، اس دوران ڈی پی او گوادر وہاں پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ پہنچ گئے اور انہیں عدالت میں جانے سے روک کر گرفتار کرلیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اللہ بخش نے کہتے ہیں کہ مولانا ہدایت الرحمان کے ہمراہ ان کے ساتھی نصیب نوشیروانی اور حسن مراد بھی تھے، جو دھرنے کے بعد روپوش ہوگئے تھے، انہیں بھی پولیس نے گرفتار کر لیا۔
گوادر کے صحافی کے بقول گرفتاری سے قبل مولانا ہدایت کے ساتھی وکلا نے پولیس کے ساتھ بحث کی اور کہا کہ مولانا عدالت میں پیش ہوکر گرفتاری دینا چاہتے ہیں، تاہم پولیس نے اس کی اجازت نہ دی اور انہیں عدالت سے باہر گرفتار کر لیا۔
حق دو تحریک کا دھرنا 60 روز تک جاری رہا جبکہ شرکا نے 22 دسمبر کو گوادر پورٹ روڈ پر دھرنا دے کر اسے بند کردیا تھا، جس پر25 اور 26 دسمبر کی درمیانی شب پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دھرنا ختم کروا دیا تھا۔
پولیس کی کارروائی کے دوران دوسرے روز گوادر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سروس معطل کر دی گئی تھی، جسے ایک ہفتے کے بعد بحال کردیا گیا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے پولیس حکام سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا مگر تاحال ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔