گوادر: حالات میں بہتری کا دعویٰ، موبائل سروس ’تاحال معطل‘

حق دو تحریک کے خلاف کریک ڈاون کے بعد انتظامیہ گوادر میں معمولات زندگی کی بحالی کا دعویٰ کر رہی ہے۔

جماعت اسلامی نے حق دو تحریک کے خلاف کریک ڈاون کی مذمت کے لیے کوئٹہ میں احتجاج کیا (ہزار خان بلوچ / انڈپینڈنٹ اردو)

بلوچستان کے ساحلی شہر اور سی پیک کے مرکز گوادر کی انتظامیہ حق دو تحریک کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد پیدا ہونے والے کشیدہ حالات میں بہتری کا دعویٰ کر رہی ہے۔  

ڈپٹی کمشنر گوادر نے ہفتے کو ایک اعلامیے میں کہا کہ حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں اور شہر میں تجارتی مراکز، بینک اور پیٹرول پمپ کھل گئے ہیں۔ 

محکمہ اطلاعات بلوچستان کے جاری کردہ اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ سربندر میں معمولات زندگی بحال ہو گئے ہیں۔

’گوادر کے عوام نے ترقی مخالف عناصر اور شرپسندوں کا بیانیہ مسترد کر دیا۔‘ 

 ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جمعے کو ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ گوادر میں احتجاجی مظاہروں کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور ہنگامی قانون کے نفاذ کی خبروں پر پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو پرامن طریقے سے عدم اطمینان کا اظہار کرنے کا حق ہے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حق کو آسان بنائے۔

ضلع کیچ کے علاقے تربت سے تعلق رکھنے والے صحافی اسد بلوچ کے مطابق گوادر میں حالات اب بھی کشیدہ ہیں، جہاں لوگ گھروں میں محصور ہیں اور غیر اعلانیہ کرفیو جیسی صورت حال ہے۔

گوادر میں ایک رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ شہر میں حالات معمول پر آ رہے ہیں، دکانیں کھل رہی ہیں جبکہ شہر کے مرکزی حصے میں سکیورٹی فورسز کا گشت جاری ہے۔   

انہوں نے کہا کہ چار روز سے جاری کشیدگی کے بعد حالات بہتر ہو رہے ہیں، تاہم ابھی تک انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل ہیں، جس کے باعث لوگوں کو رابطہ کرنے اور ایک دوسرے کا حال احوال جاننے میں مشکلات کا سامنا ہے۔  

گوادر سے موصول ہونے والی اطلاعات کی بنیاد پر اسد بلوچ نے بتایا کہ تربت سے حق دو تحریک کے رہنما سنگت اللہ شاہ جی کو تھری ایم پی او کے تحت حراست میں، چار دیگر رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ دو دوسرے رہنماؤں غلام اعظم اور محمد یعقوب جوسکی کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ روز تربت میں حق دو تحریک کے مظاہرے کے بعد ہونے والی کارروائیوں میں بعض لوگوں کے گھروں میں چھاپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

حکومت بلوچستان نے گوادر میں ایک ماہ کے لیے عوامی اجتماعات اور اسلحے کی نمائش پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

حق دو تحریک کا دھرنا گذشتہ 60 دنوں سے جاری تھا اور مظاہرین نے 22 اگست کو سی پیک روٹ اور گوادر پورٹ کو بند کر دیا تھا۔

مظاہرین اور انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد پولیس نے اتوار اور پیر کی شب کارروائی کرتے ہوئے دھرنا ختم کروایا تھا۔ 

صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا لانگو نے، جنہوں نے حق دو تحریک کے ساتھ گوادر میں مذاکرات کیے تھے، سول سیکرٹریٹ میں جمعرات کو صوبائی آئی جی پولیس کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ حق دو تحریک کے خلاف کارروائی ناگزیر ہو گئی تھی۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ دھرنے کے ذریعے گوادر کو یرغمال بنا کر حکومتی رٹ کو چیلنج کیا جا رہا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’سیاح بھی دھرنے کے باعث پھنس گئے تھے، جس سے ملک کی عالمی سطح پر بدنامی ہو رہی تھی، اس لیے قانون کے نفاذ کے لیے طاقت کا استعمال ضروری ہو گیا تھا۔‘ 

امیر جماعت اسلامی ضلع کوئٹہ حافظ نور علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گوادر میں صورت حال انتہائی خراب ہے اور لوگ بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔

گوادر سے موصول ہونے والی اطلاعات کی بنیاد پر ان کا کہنا تھا کہ وہاں 200 کے قریب افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

’حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان کوئی بڑا مطالبہ نہیں کر رہے تھے، بلکہ وہ ٹرالر مافیا، پانی اور سرحد سے کاروبار کی بحالی کا مطالبہ کر رہے تھے، جن کو ماننے کے بجائے حکومت نے شب خون مارا اور لوگوں پر تشدد کیا گیا۔‘

حافظ نور علی نے بتایا کہ ان کی جماعت حق دو تحریک کے مولانا ہدایت الرحمان کے ساتھ ہونے والے واقعات کی مذمت کے لیے ملک بھر کی طرح بلوچستان میں بھی مظاہرے کر رہی ہے۔

گوادر میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی معطلی کے ساتھ پسنی اور اور ماڑہ میں بھی سروس معطل کی گئی جہاں پر اس واقعہ کے خلاف لوگوں نے مظاہرہ کیا تھا۔

(ایڈیٹنگ: عبداللہ جان)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان