سیاسی چالیں اور مس ایڈونچر

عمران خان ابھی تک جلد الیکشن کروانے کی سیاست کر رہے ہیں اور وہ اس میں اتنا کھو چکے ہیں کہ یہ اندازہ نہیں لگا پا رہے کہ پورا ملک اور ماسوائے پی ٹی آئی اور ن لیگ، ہر جماعت الیکشن موڈ میں جا کر بھرپور تیاری شروع کر چکی ہے۔

اب تو یہ سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا عمران خان واقعی اتنے مقبول ہیں، جتنا ان کی پارٹی ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے؟ (عمران خان آفیشل فیس بک پیج)

عمران خان کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں شکست کے بعد اپنی سیاسی چالوں پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ انہیں اب اندازہ ہو چکا ہے کہ آٹھ ماہ میں وہ اپنی پارٹی کو اتنا تھکا چکے ہیں کہ وہ بلدیاتی انتخابات کی تیاری تک نہیں کر سکتے۔

عمران خان کا ہر ووٹر اور سپورٹر اس بات پر ناقابل یقین حد تک اعتبار کر بیٹھا ہے کہ عمران خان مقبولیت کی اس حد کو چھو چکے ہیں جہاں تمام سیاسی جماعتیں مل کر بھی انہیں نہیں گرا سکتیں، لیکن پاکستان میں مقبولیت اور انتخابی سیاست کو مکس کرنا اتنی سنگین غلطی ہوتی ہے، جو تحریک انصاف نے کراچی میں کی اور شکست کی صورت میں اس کا خمیازہ بھی بھگتا۔

اب تو یہ سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا عمران خان واقعی اتنے مقبول ہیں، جتنا ان کی پارٹی ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے؟

اگر ہاں تو کراچی سے 2018 میں قومی اسمبلی کی 14 نشستیں جیتنے والی پارٹی اتنی بری طرح کیسے ہار گئی کہ پارٹی کے میئر شپ کے امیدوار اور رکن صوبائی اسمبلی یونین کونسل کی چیئرمین شپ تک ہار گئے؟

یقیناً تحریک انصاف کو خود بینی کی ضرورت ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ عمران خان کو اپنی سیاسی فیصلہ سازی پر بھی غور کرنا ہو گا۔

قومی اسمبلی میں واپسی کے فیصلے کے پیچھے پی ٹی آئی کی جو بھی حکمت عملی ہو لیکن یہ بات ایک مرتبہ ثابت ہو چکی ہے کہ گذشتہ نو ماہ میں عمران خان نے عجلت میں ایسے فیصلے کیے جس کا ان کی پارٹی کو نقصان اٹھانا پڑا۔

لیکن جس وقت یہ فیصلے کیے جا رہے تھے اس وقت انہوں نے اپنی پارٹی کے کسی رہنما کی نہ سنی، جن کی اکثریت بجا فرما رہی تھی کہ قومی اسمبلی سے استعفے سیاسی خودکشی ہو گی۔

چھ دسمبر کو میں ’عمران خان کی سیاست پر سوالیہ نشان‘ کے عنوان سے کالم میں تحریر کر چکا ہوں کہ ’قومی اسمبلی سے استعفوں کا اعلان بھی بغیر سوچے سمجھے جلد بازی میں کیا گیا اور نتیجتاً آج خود پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں واپس آنا چاہتی ہے اور ایسا کرنا پی ٹی آئی کے لیے ایک بڑی سیاسی شرمندگی ہو گی۔ اگر وہ چند مزید ایسے فیصلے کریں جس سے انہیں سیاسی شرمندگی اٹھانی پڑے تو ’سوئنگ‘ ووٹر ان سے یہ سوچ کر دور ہوتا جائے گا کہ جو پارٹی سنجیدہ فیصلہ سازی ٹھیک سے نہ کر سکے وہ اقتدار میں آ کر ملک کیسے چلائے گی۔‘

عمران خان ابھی تک جلد الیکشن کروانے کی سیاست کر رہے ہیں اور وہ اس میں اتنا کھو چکے ہیں کہ یہ اندازہ نہیں لگا پا رہے کہ پورا ملک اور ماسوائے پی ٹی آئی اور ن لیگ، ہر جماعت الیکشن موڈ میں جا کر بھرپور تیاری شروع کر چکی ہے۔

اسی لیے ایک ایسے وقت میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں ختم کر کے پی ٹی آئی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے سے زیادہ کچھ نہیں کر رہی۔ یہ بات درست ہے کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل سے ن لیگ کو ایک جھٹکا لگا لیکن ان فیصلوں کے سیاسی نقصانات خان صاحب کو نگران حکومتوں کی تشکیل تک سامنے آتے رہیں گے۔

اگر بات کریں ن لیگ کی، تو میں شروع دن سے اس پر قائل ہوں کہ ن لیگ کو پہلے بھی پنجاب میں ایڈونچر کر کے سیاسی ہزیمت ہی اٹھانا پڑی اور اس بار ایک مرتبہ پھر مِس ایڈونچر کر کے ایسا سیاسی نقصان اٹھایا گیا، جس نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔

اس وقت سیاسی اور انتخابی لحاظ سے اگر کوئی فائدہ اٹھا رہا ہے تو وہ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ہیں، جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ زرداری اور مولانا صاحب سیاسی جوڑ توڑ اور رابطوں کے لیے خود گراؤنڈ پر موجود ہیں۔

ن لیگ پنجاب میں پرویز الٰہی کی حکومت گرانے چلی لیکن نہ حمزہ شہباز موجود ہیں اور نہ مریم نواز۔ اب رانا ثنااللہ ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کی غیر موجودگی میں کس کس معرکے کو سنبھالنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟

دوسری اہم بات یہ کہ مرکز میں معیشت اور سکیورٹی جیسے گھمبیر مسائل کے علاوہ ناراض اتحادیوں میں گھری شہباز شریف حکومت کا پنجاب میں ایک اور مس ایڈونچر سے ایک اور فرنٹ کھولنے کا فیصلہ یقیناً غیر دانشمندانہ تھا۔

اس وقت ن لیگ کو فیصلوں میں تاخیر کی سیاسی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ وہ کون سے سیاسی فیصلے ہیں اسے دوبارہ تحریر کرنے کی بجائے یکم نومبر کو نوازشریف اور مریم نواز سے لندن میں ہونے والی ملاقات کے احوال پر مبنی کالم ’نوازشریف کے چیلنجز گھمبیر ہو گئے‘ کی چند سطور دوبارہ شیئر کرنا شاید یہ ثابت کرے گا کہ سیاسی فیصلوں میں تاخیر کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’گذشتہ برس اسی مہینے میں جب نواز شریف سے لندن میں ملاقات ہوئی تو حالات مختلف تھے، عدم اعتماد کی شنید تھی، لیکن لندن میں مقیم نواز شریف صاحب کچھ معاملات میں ’بھروسہ‘ کرنے کو تیار نظر نہیں آ رہے تھے۔

اس بار حالات مختلف ہیں، ان کی جماعت برسراقتدار ہے، ان کے بھائی وزیراعظم ہیں، مریم نواز آج ان کے پاس لندن میں موجود ہیں۔

وہ اب ’بھروسہ‘ نہ ہونے کی باتیں بھی نہیں کر رہے۔ ان کے لہجے میں ٹھہراؤ اور اطمینان ہے، لیکن آج ان کے چیلنجز بدل کر گھمبیر ہو چکے ہیں۔

آج وہ عمران خان کو ایک جمہوری شکست تو دے چکے ہیں لیکن اس سیاسی جنگ میں ن لیگ کو کچھ ایسی چوٹیں لگی ہیں، جس کا علاج صرف نواز شریف کی وطن واپسی اور مریم نواز کو پارٹی صدارت دینے کے فیصلوں کے بعد ہی شاید کچھ حد تک ممکن ہو سکے۔

ورنہ اگر زمینی حقائق اسی طرح رہے تو ن لیگ آئندہ عام انتخابات میں عوام کے پاس جاتے ہوئے کئی بار سوچے گی۔

اگرچہ مریم نواز کو پارٹی کی سینیئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر تو بنا دیا گیا ہے مگر اس فیصلے میں تاخیر کی قیمت پارٹی کو ادا کرنا پڑی۔ ن لیگ کے پاس اس وقت ایک ہی حل ہے کہ مریم نواز کو پارٹی صدارت سونپ کر عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اتارا جائے، ورنہ عام انتخابات میں اپنے ہوم گراؤنڈ پنجاب میں ان کے ساتھ وہی ہو گا جو پنجاب کے ضمنی انتخابات میں ہوا۔

آخر میں بات ق لیگ کی بھی ہو جائے جو بظاہر تو دو دھڑوں میں بٹ چکی ہے لیکن مونس الٰہی کی کامیاب حکمت عملی کی بدولت نہ صرف ق لیگ نے دس سیٹوں پر وزارت اعلیٰ حاصل کر لی بلکہ وہ عمران خان کے بھی اتنے قریب ہو چکے ہیں کہ اب ق لیگ کو پی ٹی آئی میں ضم کیا جا رہا ہے۔

مونس الٰہی کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن انہوں نے وہ سیاست کی جو تحریک انصاف اور ن لیگ دونوں نہ کر پائے۔

پی ٹی آئی میں شمولیت اور پارٹی ضم کرنے کا فیصلہ ان کا ایسی لانگ ٹرم چال ہے، جو انہیں عمران خان کی نااہلی کی صورت میں وزارت عظمیٰ کا امیدوار بھی بنا سکتی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ