پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اکیلا رہ گیا ہے: سابق نیکٹا چیف

نیکٹا کے سابق سربراہ نے کہا کہ عمران خان کو قومی سلامتی کمیٹی کے حالیہ اجلاسوں میں دعوت دینی چاہیے تھی کیونکہ اس وقت وہ ’ایک منفی سٹیک ہولڈر‘ ہیں۔

احسان غنی خیبر پختونخوا میں پولیس سربراہ اور انٹلیجنس بیورو کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں (احسان غنی)

پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کے قومی ادارے نیکٹا کے سابق سربراہ احسان غنی کا کہنا ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے معاملات سے توجہ ہٹنے کی وجہ سے یہ مسئلہ دوبارہ پیدا ہوگیا ہے۔

احسان غنی خیبر پختونخوا میں پولیس سربراہ اور انٹلیجنس بیورو کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کے اس سوال پر کہ کیا پاکستان میں ایک بار پھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں میں اضافہ کیوں ہوا تو انہوں نے کہا: ’جب دہشت گردی کم ہوگئی تھی تو ہمارا اس مسئلے پر فوکس ختم ہو گیا تھا اور یہ کہا گیا کہ کام پورا ہوگیا تھا اور مقاصد حاصل کر لیے گئے تھے۔ اس کے بعد پولیس پر توجہ کم کی گئی تھی اور شدت پسند گروپوں سے متعلق انٹلیجنس گیدرنگ یعنی معلومات جمع کرنے پر بھی توجہ کم ہوگئ تھی۔‘

جب احسان غنی سے پوچھا گیا کہ یہ غلط فہمی کیوں پیدا ہوگئی تھی؟ تو ان کا موقف تھا کہ یہاں کہا گیا تھا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوا تھا اور یہ دعویٰ بھی درست  نہیں تھا کہ دہشت گردی 95 فیصد کم ہوگئی تھی۔

’ایک تو فوکس ختم ہوگیا تھا۔ اور دوسرا یہ کہ جس طرح افغانستان میں حکومت تبدیل ہوئی ہمیں معلوم تھا کہ اس کے پاکستان پر ضرور اثرات مرتب ہوں گے۔‘ ان کے بقول اب وہ اثرات یہاں پہنچ گئے ہیں۔ ’ہمیں یہ معلوم ہے کہ افغانستان میں موجودہ حکومت پاکستان میں براہ راست کارروائیاں نہیں کی ہیں لیکن افغانستان میں تبدیلی سے ان لوگوں (ٹی ٹی پی) کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ (افغان طالبان) افغانستان میں حکومت لے سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں؟‘

احسان غنی کا کہنا تھا کہ دو تین وجوہات کی بنیاد پر یہ مسئلہ پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک ہوگیا ہے۔ امریکہ نے مسلسل پاکستان سے ڈو مور (زیادہ کرنے) کا مطالبہ کیا لیکن وہ کچھ بھی نہ کرتے تھے۔ اب کوئی بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری مدد کے لیے نہیں آئے گا اور ہم اکیلے رہ گئے ہیں۔‘

جب نیکٹا کے سابق سربراہ سے عمران خان کے اس بیان سے متعلق پوچھا گیا کہ اگر امریکا سے پاکستانی طالبان کے خلاف مدد لی جاتی ہے تو اس سے افغانستان میں طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات خراب ہوسکتے ہیں اور اگر تعلقات خراب ہوجائے تو دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ کا آغاز ہوجائے گا؟ اس پر احسان غنی کا کہنا تھا کہ وہ طویل جنگ سے متعلق خدشات سے تو متفق ہیں لیکن اگر پاکستان مسئلے کو اس تناظر میں دیکھتا ہے تو کہیں بھی نہیں جا سکیں گے اور وہیں کھڑے رہیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر ہم واضح اعلان کردیں کہ بس اب دہشت گردی کے لیے برداشت لیول صفر ہے تو حالات میں بہتری آسکتی ہے۔

اس وقت فوجی قیادت، سول قیادت اور عوام کا پہلے سے موقف یکساں ہے کہ وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی نہیں مانتے، ویسے بھی اب ٹی ٹی پی یا کسی اور گروپ کو پاکستان میں حمایت بھی حاصل نہیں۔

’دہشت گردی کے خلاف اب لوگ ہر جگہ نکلتے ہیں۔ لوگ اگر ٹی ٹی پی کے خلاف نکلے بھی ہیں لیکن یہ عوام کا کام نہیں بلکہ یہ حکومت کا کام ہے۔ اگر حکومت سوچتی ہے کہ یہ عوام کا کام ہے تو اس پالیسی سے حکومت لوگوں کو خانہ جنگی کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔ لوگوں کی تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔‘

عمران خان ایک ’منفی سٹیک ہولڈر‘

ٹی ٹی پی کی تشدد کی کارروائیوں میں اضافے اور اس کی بنیاد پر مرکزی حکومت پر عمران خان کے بیانات سے متعلق نیکٹا کے سابق سربراہ نے کہا کہ عمران خان کو قومی سلامتی کمیٹی کے حالیہ اجلاسوں میں دعوت دینی چاہیے تھی کیونکہ اس وقت وہ ’ایک منفی سٹیک ہولڈر‘ ہیں۔ کمیٹی کا اجلاس ایک اچھی پیش رفت تھی اور اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کو بلانا چاہیے تھا۔

جب احسان غنی سے عمران خان کے اس بیان پرموقف دینے کے لیے کہا گیا کہ خیبر پختونخوا کی پولیس ٹی ٹی پی کا مقابلہ نہیں کرسکتی توپولیس کو وسائل کی فراہمی کس کی ذمہ داری ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ یہ مرکز اور صوبے کی مشترکہ ذمہ داری ہے کیونکہ جنگ مشترکہ ہے۔

’جنگ ایک صوبے تک محدود نہیں لیکن خیبر پختونخوا میں زیادہ ہے۔ پچھلی حکومت نے خیبر پختونخوا کی بہت امداد کی تھی۔ یہ سب کی ذمہ داری ہے۔ یہ عمران خان کی نہیں بلکہ صوبے کی پولیس سربراہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ کہتے کہ وہ نہیں کرسکتے۔  یہ دل توڑنے والا بیان تھا۔ یہ پولیس کے عزم پر اثر کرسکتا ہے۔ میں خیبر پختونخوا پولیس کا سربراہ رہا ہوں مجھے افسران کا پتہ ہے وہ صلاحیت رکھتے ہیں اور کرسکتے ہیں۔ لیکن جب ان کوواضح پالیسی نہیں دی جاتی کہ لڑائی لڑنی ہے یا نہیں۔ پولیس کے لیے ایک سمت کا تعین کرنا ہے اور اس کی ذمہ دار ریاست ہے۔‘

ان کے مطابق پاکستان کی معیشت اس وقت لائف سپورٹ پر ہے اور اگر دہشت گردی جاری رہی اور اضافہ ہوتا رہا تو باہر سے سرمایہ کاری متاثر ہوسکتی ہے، تاجر باہر چلے جائیں گے، تجارت رک جائے گی۔ میعشت کو وہ لائف سپورٹ بھی ختم ہوجائے گی اور کوئی پاکستان کی مدد بھی نہیں کرے گا۔ امریکا نے جس طرح پاکستان کو پہلے امداد دی تھی وہ تو دوبارہ نہیں ملے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سوال پر کہ دہشت گردی کی موجودہ لہر سے کیسے نمٹا جائے؟ نیکٹا کے سابق سربراہ نے کہا کہ جس ادارے کا جو کام ہو وہ وہی کرے، پولیس، ایف سی اور فرنٹیر کورکا کردار اہم اور زیادہ ہے۔

’فوج کو گذشتہ دو سال میں بہت متنازع کیا گیا ہے اور ان کے لیے اپنے معاملات پر فوکس انتہائی ضروی ہے کیونکہ جب ملک نہیں ہوگا تو کس کی عزت رہے گی۔ میرے خیال میں 1971 کے بعد فوج کے لیے موجودہ حالات میں ایک بہت مشکل وقت ہے۔ ایک طرف دہشت گردی اور دوسری جانب اپنے تاثر کو بہتر بنانے پر توجہ دینا ہے اور اعتماد کی بحالی کے لیے کام کرنا ہے۔ وہ اس میں مصروف ہیں اور حکومت سیاست میں پھنس گئی ہے۔‘

اس سوال پر کہ پولیس ٹی ٹی پی کے نشانے پر سب سے زیادہ کیوں ہے تو انہوں نے کہا کہ پولیس ہمیشہ فرنٹ لائن رہی ہے۔ دھماکے کی پہلی اطلاع پولیس کو آتی ہے۔ اور پہلا رسپانس بھی پولیس ہی دیتی ہے تو پولیس کو مزید مضبوط کرنا چاہیے۔ 2008 سے پولیس کا بجٹ کم ہوا ہے۔

احسان غنی نے کہا دہشت گردی سے نمٹنے کی بنیادی ذمہ داری مرکزی حکومت اورساتھ ساتھ صوبائی حکومت کی ہے۔

’مرکز ہدایات دے گا۔ سیاسی قیادت کا خیال ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی روکنا فوج کا کام ہے۔ یہ کام ان کے حوالے کیا گیا ہے۔ حالانکہ ایسا بلکل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ نہ فوج کا ہے اور نہ ہونا چاہیے۔ فوج کا کام فوجی آپریشن ہے کہ علاقہ صاف کر دے۔ بھر سیاسی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ علاقہ سٹیبلائیز کرے۔ یہ سوچ غلط ہے کہ ہر چیز فوج کا کام ہے اور ہم سیاسی لڑائی لڑیں گے۔ فوج کا موقف ہے کہ ان کی حدود ہیں اور ان کا کام سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے۔ ٹرینگ پر توجہ دینا ہے۔ کس ملک کی فوج نے 20 سال تک اس طرح لڑائی لڑی ہے؟ انتہا پسندی کا خاتمہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا کام ہے۔‘

احسان غنی کے کہا کہ حل مشکل نہیں ہے لیکن اس پر ایک غیرمنقسم توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ  جب ارمی پبلک سکول پر حملہ ہوا تھا تو اسلام آباد میں عمران خان کا دھرنا جاری تھا اورپھر یہ سب پشاور میں بیٹھ گئے تھے کہ کیا کرنا ہے۔ وزیر اعظم کو اس تمام معاملے کی اونرشپ اپنے ہاتھ میں لینا پڑے گی۔

’پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔ اس حکومت کو بھی 10 مہینے ہوگئے ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہر 15 دن بعد ہونا چاہیے اورصرف اسلام آباد میں نہیں بلکہ آج اسلام آباد، تو پھر کل پشاور، کوئٹہ اور کراچی اور لاہور میں ہونا چاہیے۔ کیونکہ حکومت اور قوم کو معاملے کی نزاکت سے آگاہ کرنا ہے اور اس میں میڈیا کا ایک بڑا کردار شامل ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان