پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اپنے دفاع کا حق ہے: امریکہ

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا ہے کہ پاکستان کے عوام نے دہشت گرد حملوں سے بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔

واشنگٹن: مارچ 2022 کو لی گئی اس تصویر میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالوں کے جواب دے رہے ہیں۔ (فائل تصویر: اے ایف پی)

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ وہاں کے عوام نے دہشت گرد حملوں سے بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس سے منگل کو پریس بریفنگ کے دوران سوال کیا گیا کہ ’پاکستان نے اعلان ہے کیا کہ وہ افغانستان پر حملہ کرے گا، کیونکہ اس نے کہا تھا کہ افغان طالبان پاکستانی طالبان کو اپنے ملک میں کچھ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس صورتحال میں وہ افغانستان میں حملہ کرتے ہیں یا نہیں۔ افغانستان بحران میں ہے۔‘

محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا جواب میں کہنا تھا کہ ’ہم پاکستانی قومی سلامتی کمیٹی کے حالیہ بیان سے آگاہ ہیں۔‘

رواں ہفتے پاکستانی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا تھا کہ پرتشدد کارروائیاں کرنے والے تمام عناصر کو جڑ سے اکھاڑا جائے گا اور ریاست ان سے پوری طاقت سے نمٹے گی۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا تھا کہ پاکستان کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اور پاکستان کی سرزمین کے ایک ایک انچ پر ریاست کی مکمل رٹ برقرار رکھی جائے گی۔

نیڈ پرائس نے مزید کہا کہ ’ہم طالبان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس وعدے پر قائم رہیں جو انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا ہے کہ افغان سرزمین دوبارہ کبھی بھی بین الاقوامی دہشت گرد حملوں کے لیے لانچ پیڈ کے طور پر استعمال نہیں ہو گی۔‘

نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ ’یہ ان وعدوں میں شامل ہیں جنہیں طالبان آج تک پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں یا پورا کرنے کے لیے تیار نہیں۔‘

پاکستانی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ نے گذشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’پاکستان افغانستان میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔‘

وزیرداخلہ نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا، ’اگر طالبان انتظامیہ ٹی ٹی پی کو ختم کرنے اور عسکریت پسندوں کو پاکستان کے حوالے کرنے میں ناکام رہی تو پاکستان افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر حملہ کر سکتا ہے۔‘

پاکستانی وزیر داخلہ کے اس بیان کو افغان وزارت دفاع نے ’اشتعال انگیز اور بے بنیاد‘ قرار دیا تھا۔

افغانستان میں طالبان کی جانب سے خواتین کو این جی اوز میں کام کرنے سے روکنے کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے نیڈ پرائس نے کہا، ’طالبان کے اس فیصلے نے لاکھوں افغانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے جو اپنی بقا کے لیے انسانی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔

’ہم طالبان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس نقصان دہ فیصلے کو فوری طور پر واپس لیں۔ ہم بدلتی ہوئی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہم اقوام متحدہ اور این جی او کے شراکت داروں کے ساتھ افغانستان میں ان کی کارروائیوں کی صورت حال کے بارے میں مسلسل رابطے میں ہیں۔‘

ترجمان نے کہا کہ ’خواتین کو این جی اوز میں کام کرنا چاہیے تاکہ لاکھوں افغان اپنی بقا کے لیے دوبارہ خوراک، ادویات، موسم سرما کا سامان حاصل کر سکیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس پابندی سے لاکھوں افراد کو اہم اور زندگی بچانے والی امداد فراہم کرنے کے لیے انسانی حقوق کے کارکنوں کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے، اس کی وجہ سے کچھ تنظیمیں اپنی کارروائیاں روکنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔‘

نیڈ پرائس نے کہا کہ ’طالبان افغان عوام بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کی فلاح و بہبود اور حقوق اور آزادیوں اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ معمول کے تعلقات میں اپنی عدم دلچسپی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔

’ہم افغان عوام کے مصائب کو کم کرنے میں مدد کرنے کے لیے پرعزم ہیں، جو طالبان کی اپنی نقصان دہ پالیسیوں کا شکار ہیں۔‘

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’طالبان نے بین الاقوامی برادری سے وعدے کیے ہیں۔ لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے افغان عوام سے وعدے کیے ہیں۔ یہ وہ وعدے ہیں جن کی پروا ہم سب سے زیادہ کرتے ہیں۔

’جب تک طالبان ان وعدوں کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہوتے، ہم اس طرح سے جواب دیں گے جس میں افغان عوام کی حمایت جاری رکھتے ہوئے ہماری طرف سے سخت مذمت کی جائے گی۔ اور ہم بہت محتاط رہیں گے کہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے افغان عوام کی انسانی فلاح و بہبود کو مزید خطرہ لاحق ہو۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا