گلگت بلتستان: برف کے میناروں میں پانی ذخیرہ کرنے کا انوکھا طریقہ

گلگت بلتستان کے کئی علاقوں میں سردیوں کے موسم میں پانی کو آئس ٹاورز میں ذخیرہ کیا جاتا ہے، جو گرمیوں میں فصلوں کی کاشت کرنے کے وقت استعمال کیا جاتا ہے۔

گلگت بلتستان کے رہائشیوں اور سائنس دانوں نے دلکش مناظر، گلیشیئرز اور دنیا کے چند بلند ترین پہاڑوں کی سرزمین میں پانی کی قلت سے نمٹنے کے لیے انوکھا طریقہ تلاش کیا ہے۔

ایک مقامی ادارے اور بلتستان یونیورسٹی کے ماہرین نے مقامی لوگوں کے تعاون سے حسین آباد گاؤں میں مصنوعی گلیشیئرز یا برف کے ٹاور تیار کیے ہیں۔

سردیوں کے تین مہینوں کے دوران ان سٹوپاز میں پانی کو جمع کیا جاتا ہے تاکہ خشک موسم میں استعمال کیا جا سکے، خصوصاً مارچ اور اپریل میں جب گندم، مکئی اور آلو کی کاشت کے لیے پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

گلگت بلتستان میں فصل کی کاشت مارچ، اپریل میں شروع ہوتی ہے اور گلیشیئرز کے دیر سے پگھلنے کی وجہ سے کاشت کاروں کو مئی اور جون تک پانی کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

اس مسئلے کا حل آئس ٹاورز کی شکل میں سامنے آیا ہے، جو علاقے کے کاشت کار تعمیر کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آئس ٹاور کو بلتی زبان میں ’گانگ پیرو‘ اور لداخ میں ’آئس ٹوپا‘ کہا جاتا ہے۔

اس سال بلتستان کے مختلف مقامات پر آئس ٹاور پر کام ہو رہا ہے۔

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے یونیورسٹی آف بلتستان کے ڈاکٹر ذاکر حسین ذاکر نے کہا کہ حسین آباد کے پاس تین آئس ٹاور بنائے گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بلتستان میں آئس ٹاورز کی تعمیر 2017 میں شروع ہوئی اور بلتستان یونیورسٹی نے اس پر باقاعدگی سے کام 2021 میں شروع کیا تھا۔

ان کے مطابق: ’حسین آباد آئس ٹوپا لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت شروع کیا تھا اور بعدازاں دیگر افراد نے ہماری مدد مانگی اور اس سال ہم نے تین جگہ پر آئس ٹاور بنائے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’آئس ٹاور میں پانی کو ہوا میں اچھال کر برف بنائی جاتی ہے جو صاف پانی میں تبدیل ہوتی ہے اور یہی پانی کاشت کاری کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

بقول ذاکر حسین ذاکر: ’ہمالیہ کی رینج میں گلیشیئر پگھل رہے ہیں، اس لیے ہم نے سوچا کہ سردی کے تین چار مہینوں میں جو پانی ضائع ہو رہا ہے، اس کو ہوا میں اچھال کر آئس بنا لی جائے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات