گلگت بلتستان کے کچھ علاقوں میں آج بھی مشک کے پرانے طریقے سے لسی، دودھ اور دہی بنایا جا رہا ہے۔
علاقے کی مختلف چراگاہوں میں لوگ مشک سے مکھن اور لسی نکالنے کے طریقے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
سکردو کے گاؤں شیلا کی کل آبادی 60 گھرانوں پر مشتمل ہے۔ اس چراگاہ میں تقریباً 14 سے 15 لوگ مال مویشیوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ اپنی روزی تلاش کرتے ہیں۔
شیلا سے سکردو کا فاصلہ تقریباً 70 کلو میٹر ہے۔ یہاں کے لوگ زیادہ تر آلو اور جو کاشت کرتے ہیں۔
شیلا کے رہائشی غلام رسول نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمارے آباؤ اجداد کے زمانے میں بجلی نہیں تھی تو ہم اسی چیز کو بھیڑوں کی کھال سے تیار کرتے تھے، کیا پتا ہمارے بعد ہمارے بچے یہ کام کریں یا نہیں۔‘
ان کے مطابق مشک کی تیاری کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔
’بکری کو ذبح کرنے کے بعد اس کی کھال اتارنے کا کام تجربہ کار ہنر مند کے علاوہ دوسروں کے بس کی بات نہیں۔
’کھال اتارنے کے بعد بالوں کو کھال سے الگ کر دیا جاتا ہے پھر اس کو ایک سال تک سوکھنے کے لیے لٹکایا جاتا ہے۔
’اس کے بعد اسے مضبوط ہونے پر استعمال کیا جاتا ہے۔‘
غلام رسول کہتے ہیں کہ مشک میں دودھ، دہی، لسی، مکھن اور فروز سمیت پانچ چیزیں تیار ہوتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’مشین سے تیار مکھن جلد خراب ہو جاتا ہے لیکن مشک میں تیار مکھن کو کئی سال بھی رکھ لیں تو وہ خراب نہیں ہوتا۔‘
غلام رسول کے مطابق ’ہم ایک سیزن میں تین سے چار من مکھن نکالتے ہیں جس میں سے نصف کو فروخت کر کے باقی گھر پر استعمال کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ شیلا کے علاقے میں سردی میں برف باری کی وجہ سے مال مویشی چرانے میں مشکل ہوتی ہے لیکن ہم محفوظ شدہ دودھ کو دہی یا مکھن بنا کر استعمال کر لیتے ہیں۔‘